الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کا اپنے دوست کو اس کے رشتے داروں سے ملنے سے منع کرناجائز نہیں ہے، کیونکہ قطع تعلقی کبیرہ گناہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ * أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (محمد: 22-23)
’’پھر یقینا تم قریب ہو اگر تم حاکم بن جاؤ کہ زمین میں فساد کرواور اپنے رشتوں کو بالکل ہی قطع کرو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ۔ اور انہیں بہرا اور اندھا بنا دیا ۔‘‘
اور فرمایا:
وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (الرعد: 25)
’’اور وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو اسے پختہ كرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو کاٹ دیتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے لعنت ہےاور انہی کے لیے اس گھر کی خرابی ہے۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الرَّحِمُ شِجْنةٌ، فمَن وصَلَها وصَلْتُه، ومَن قَطَعها قطَعْتُه)) (صحيح البخاري، الأدب: 5989)
”رحم (رحمن سے ملی ہوئی) ایک شاخ ہے، جو شخص اس كو ملائے گا ، میں اسےملاؤں گا اور جو اس سے قطع تعلق کرےگا، ميں اس سے قطع تعلق کروں گا۔“
1. آپ نے اپنے دوست کو رشتے داروں سے قطع تعلقی کا حکم دے کر حرام کام کا ارتکاب کیا ہے۔ لہذا آپ پر واجب ہے کہ فورا رب کے حضور توبہ کریں ، اپنے گناہ پر نادم ہوں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ ارادہ کریں۔ اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ کو پسند کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔
2. کسی مسلمان کےلیے جائز نہیں ہے کہ وہ قطع تعلقی کی قسم کھا کر اپنے رشتے داروں سے قطع تعلقی کر لے، کیونکہ صلہ رحمی کو اللہ تعالی نے واجب قرار دیا ہے۔ آپ کا دوست بھی حرام کام کی قسم کھانے کی وجہ سے گناہ گار ہے۔اس پر واجب ہے کہ وہ سچی توبہ کرے اور اپنے رشتے داروں سے تعلق کو بحال کرے۔
سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ (صحيح البخاري، الأيمان والنذور: 6696)
”جس نے نذر مانی کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو وہ اسے پورا کرے اور جس نے نذرمانی کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اس (اللہ تعالٰی) کی نا فرمانی نہ کرے۔“
1. حرام کام کی قسم منعقد ہی نہیں ہوتی، اس لیے اس میں توبہ واستغفار کرنا واجب ہے، کفارہ نہیں ہے۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے ، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا نَذْرَ إِلَّا فِيمَا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ وَلَا يَمِينَ فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ (سنن أبي داود، الأيمان والنذور: 3272) (صحيح)
”کوئی نذر نہیں سوائے اس کے جس میں اللہ کی رضا مقصود ہو اور نہ قطع رحمی میں قسم ہے ۔ “
قسم کا حکم بھی نذر والا ہی ہے۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ عبد الخالق صاحب حفظہ اللہ
3- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ
4- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب حفظہ اللہ