سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بچوں کو جنوں سے ڈرانا

  • 5373
  • تاریخ اشاعت : 2024-06-11
  • مشاہدات : 151

سوال

اگر کوئی عورت کہے کہ جن آؤاور اسے لے جاؤ صرف اس کے بچے کو دھمکانے کے لیے، حالانکہ اس کا مقصد واقعی جنوں کو پکارنا نہیں ہے (جیسا کہ غیب میں کسی کو پکارنا شرک ہے) کیا یہ پھر بھی شرک ہے؟میں نے بہت سی خواتین کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کو اپنے بچوں کی پرورش کا ہر لمحہ خیال رکھنا چاہیے، وہ اپنے بڑوں کے اخلاق، عادات اور ان کے اعمال کو اپناتے ہیں، ماں باپ ، بڑے بہن بھائی کے رویوں کا بچے کے کردار پر بہت گہرا اثر پڑتا  ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے عادات و اعمال اور اقوال  میں شرعی حدود وقیود کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ اور ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جو بچے کی نفسیات پر برا اثر چھوڑے۔

چھوٹے بچے کو جنوں سے ڈرانا  حرام ہے کیونکہ اس سے بچے کے دل میں جنوں اور شیطانوں سے خوف پیدا ہو گا ، ممکن ہے یہ خوف اس کے دل میں مستقل بیٹھ جائے اور اس کے دل میں جنوں اور شیطانوں  کے بارے میں غلط اور شرکیہ نظریات پیدا ہوں جائیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:

وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا (الجن:6)

اور یہ کہ بات یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑتے تھے تو انھوں نے ان (جنوں) کو سرکشی میں زیادہ کر دیا۔

إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران: 175)

یہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے ، تو تم ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔

 یہ جھوٹ کے زمرے میں بھی آتا ہے، جو حرام ہے اور منافق کی نشانیوں میں سے ہے۔

سيدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  کہ نبی ﷺنے فرمایا: ”سچائی“ نیکی کا راستہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک وہ صدیق کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ اور جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے ہاں کذاب (بہت جھوٹا) لکھا جاتا ہے۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ

2- فضیلۃ الشیخ عبد الخالق صاحب حفظہ اللہ

3- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ

تبصرے