الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکورصورت حال کے مطابق میت کے ورثاء میں ایک بیوی، تین بیٹیاں، ایک پوتی، دو بھائی اورایک بہن ہیں۔ میت کی کل جائیداد کی تقسیم شرعی اصولوں کے مطابق درج ذیل طریقہ سے کی جائے گی:
نمبر شمار |
میت کا ورثاء |
جائیداد کی تقسیم |
120ایکڑ زمین |
فیصد |
1 |
تین بیٹیاں |
کل مال کا دو تہائی |
80 ايكڑ |
%66.7 |
2 |
بیوی |
کل مال کا آٹھواں حصہ |
15 ايكڑ |
%12.5 |
3 |
پوتی |
اس کو کچھ نہیں ملے گا |
--- |
--- |
4 |
دو بھائی |
ان تینوں کو باقی ماندہ مال ملے گا |
ہر بھائی کو 10 ایکڑ |
%16.7 |
5 |
ایک بہن |
5 ایکڑ |
%4.2 |
تين بیٹیوں کے دو تہائی حصے کی دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ (النساء: 11)
پھر اگروہ دو سے زیادہ عورتیں(ہی) ہوں، تو ان کے لیے اس کا دوتہائی ہے جو اس نے چھوڑا
بیوی کے آٹھویں حصے کی دلیل:
ارشادباری تعالی ہے:
فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ (النساء: 12)
پھراگر تمھاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے اس میں سے آٹھواں حصہ ہے جو تم نے چھوڑا۔
دوبھائی اور ایک بہن کے باقی ماندہ حصہ لینے کی دلیل:
سیدنا ابن عباس رضی الله عنهما بيان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَر (صحيح البخاري، الفرائض: 6732).
تم جن ورثا کا حصہ متعین ہے انہیں ان کا حصہ پورا پورا ادا کر دو، پھر جو مال بچ جائے اسے میت کے قریبی ترین مرد رشتےدارکو دے دو۔
بہن کو بھائی سے آدھا حصہ ملے گا:
ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ (النساء: 176)
اوراگروہ کئی بھائی بہن مرد اورعورتیں ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ عبد الخالق صاحب حفظہ اللہ
3- فضیلۃ الشیخ انس مدنی صاحب حفظہ اللہ