الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیوی پرخاوند کی اطاعت فرض ہے حتی کہ اس کے لیے اپنے والدین سے بھی زیادہ خاوند کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاَ يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصُومَ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَلاَ تَأْذَنَ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِه.
(صحيح البخارى، النکاح : 5195).
كسى عورت كے ليے جائزنہيں كہ وہ اپنے خاوند كى موجودگى ميں ( نفلى ) روزہ ركھے، اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير گھرميں كسى كو( آنے كى ) اجازت بھی نہ دے ۔
سیدنا ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بیان کرتے ہیں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
إِذَا صلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَصَّنَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ بَعْلَهَا، دَخَلَتْ مِنْ أَيِّ أَبْوابِ الجَنَّةِ شَاءَتْ. (صحیح الجامع: 660).
جب عورت اپنى پانچ نمازيں ادا كرے، رمضان كے روزے ركھے، اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اوراپنے خاوند كى اطاعت كرے ،تو اسے كہا جائيگا: تم جنت كے جس دروازے سے بھى چاہو داخل ہو جاؤ ۔
سیدنا معاذ رضى اللہ تعالى عنہ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ علیہ وسلم كو سجدہ كيا۔ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: معاذ يہ كيا ہے؟ توانہوں نے جواب ديا: ميں جب شام گيا تو میں نے ديكھا كہ وہ لوگ اپنے پادريوں اور بشپ كو سجدہ كرتے ہيں تو ميرے دل ميں خیال آيا كہ ہميں بھی رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرنا چاہیے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا، وَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا وَهِيَ عَلَى قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعْه. (سنن ابن ماجه، النكاح: 1853) (صحيح).
تم ايسا مت كرو، اگر ميں كسى كو حكم ديتا كہ وہ غيراللہ كو سجدہ كرے، تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كيا كرے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد صلى اللہ علیہ وسلم كى جان ہے عورت اس وقت تك اپنے رب كا حق ادا نہيں كر سكتى جب تك كہ وہ اپنے خاوند كا حق ادا نہ كر دے، اگر خاوند اسے بلائے اور بيوى پالان پرہوتو بھی اسے انكار نہيں كرنا چاہيے ۔
1- اگرعورت اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی ہے تو بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جائے گی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب اپنے والدین کے گھر جانا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی اور عرض کیا:
أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ؟. (صحیح البخاري، المغازی: 4141) ، صحیح مسلم، التوبة: 2770).
کیا آپ مجھے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں؟
1- اسی طرح بیوی پرلازمی ہے کہ وہ خاوند کی اجازت کے بغیر کسی کو خاوند کے گھر میں آنے کی اجازت نہ دے۔
ليكن خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كو اس كے والدين اور دوسرے محرم رشتہ داروں سے ملنے كى اجازت دے، اور منع نہ کرے، كيونكہ بيوى کو اپنے والدين اورمحرم رشتہ داروں سے ملنے سے روكنے ميں قطع تعلقى ہوتى ہے، اور ہو سكتا ہے كہ وہ خاوند کے روکنے کی وجہ سےاس كى مخالفت كرنا شروع كر دے، اور خاوند كى بات ہى نہ مانے۔
جب عورت کو اس كے والدين سے ملنے كى اجازت دى جائيگى، اوروہ اپنے دوسرے محرم رشتہ داروں كو بھی ملنے جا سكےگى، تو اسے خوشى حاصل ہوگى، اس کے خيالات اچھے ہونگے، اس كى اولاد بھى خوش ہوگى، اور اس سب كا فائدہ خاوند اور خاندان كو ہوگا۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
3- فضیلۃ الشیخ عبد الخالق صاحب
4- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب