تقلید کا اصطلاحی معنی ہے کہ کسی کی بات بغیر دلیل کے مان لینا۔ اور اُمت مسلمہ میں مروج ائمہ اربعہ کی شخصیات پر بننے والے فرقے مالکی، حنفی ،شافعی اور حنبلی یہ سب کے سب تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں جبکہ ائمہ اربعہ کے اقوال موجود ہیں کہ ہماری تقلید نہ کرنا بلکہ ان کے کسی قول کے خلاف حدیث آجائے تو ان کا قول چھوڑنے کی تلقین کی گئی ہے۔
شریعت میں جو کہ قرآن و سنت کے احکام پر مشتمل ہے۔ ایک مسلمان کو ان پر تمسک کا حکم دیا گیا ہے او رجہاں قرآن و سنت کے خلاف کوئی رائے یا فیصلہ آجائے اسے ترک کردینا ہی منشا ے شریعت ہے۔ اور تقلید سے صرف ایک رائے کو ترجیح دینے کی مشق ہوتی ہے چاہے وہ درست ہو یا غلط او راس کے مقابلہ میں کوئی بھی فیصلہ یا قول ناقابل قبول ہوتا ہے۔
اسلاف کے طرز عمل سے واضح ہے کہ وہ کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے بلکہ قرآن و سنت پر عامل مسلمان تھے۔ او رہمارے لیے وہی مشعل راہ ہیں۔ صحابہ کے زمانے میں کوئی ابوبکری، عمری اور عثمانی نہ تھا اگر یہ لوگ تقلید کوکوئی حیثیت دیتے تو ضرور کوئی درجہ دیتے بلکہ وہ لوگ اتباع سنت کو حرزجاں بنائے ہوئے تھے۔ لہٰذا اگر ان کی نجات تقلید کے بغیر ممکن ہے تو آج بھی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے تقلید کی حیثیت نہ واجب کی ہے نہ مستحب کی ۔ ہاں اتباع سنت کے مقابلہ میں حرام کی حیثیت برقرار ہے۔