الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی بھی معاملہ کے حلال و حرام ہونے کا مدار درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم کی واپسی نہ کرسکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام سے سود ادا کروں گا۔ جس طرح سود کا لینا دینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناجائز ہے، اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ