الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز اگرچہ طویل و قصیر دونوں طرح پڑھنا ہی جائز ہے ،مگریہ لوگوں کی قوت برداشت پر منحصر ہے نہ کہ امام کی خواہش پر کہ وہ طویل و قصیر میں سے جس سنت کا چاہيے انتخاب کرلے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی نماز عموماً طویل پڑھا کرتے تھے ،مگر فرض نماز نسبۃً مختصر ہوتی تھی۔آپ نے فرض نماز میں مقتدیوں کا خیال رکھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ سیدنا ابو ھريرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اذا صلى أحدكم للناس فليخفف فإن فيهم السقيم والضعيف والكبير وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطوّل ماشاء (صحیح بخاری: ۷۰۳) اگر تم ميں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہيے کہ وہ اسے مختصر کرے کيونکہ ان ميں کوئی بيمار، ناتوان اور بوڑھے بھی ہيں اور جب اکيلا اپنے لئے نماز ادا کرے تو جتنا چاہے اسے لمبا کرے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جنہوں نے عشاء کی نماز میں سورۂ بقرہ پڑھی تھی، فرمایاتھا کہ ''کیا تم لوگوں کو فتنے میں ڈالنا چاہتے ہو، تم سورۃ اللیل، سورۃ الشمس وغیرہ پڑھا کرو۔'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدیوں کا اتنا زیادہ خیال رکھتے تھے کہ بسااوقات لمبی نماز کا ارادہ کرتے مگر کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کريم صلی اللہ عليہ و سلم نے فرمايا: "إنی لأقوم فی الصلاة أريد أن أطول فيھا فاسمع بکاء الصبی " (متفق علیہ) ميں جب نماز ميں کھڑا ہوتا ہوں تو ميں اسے لمبا کرنا چاہتا ہوں ۔ پھر بچے کا رونا سنتا ہوں تو ميں اس کی ماں پر مشقت کو نا پسند کرتے ہوئے اپنی نماز کو مختصر کر ديتا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے نماز کو طويل کرنے کا معاملہ لوگوں کی برداشت پر منحصر ہے ، امام کی مرضی پر نہيں کہ وہ جس سنت کا چاہيے انتخاب کرے جس ميں طويل نماز اور مختصر نماز کے ، ہر ايک کيلئے مناسب اور مختلف پيمانے ہيں ۔ چار رکعت نماز اگر جہری ہو تو پندرہ منٹ ایک مناسب ٹائم ہے،زیادہ طویل نہیں ہے،لیکن سری نماز جیسے ظہر و عصر تو ان کے لئے مناسب ٹائم تقریباً دس منٹ ہونا چاہئیے۔ رکوع و سجود کی تسبیحات کی کم از کم تعداد تین ہے،اس سے کم نہیں ہونی چاہئے ،البتہ زیادہ جتنی مرضی آپ پڑھ لیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ