سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

یہود ونصاری سے تجارت کرنا

  • 4888
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 22

سوال

کیا قرآن کریم اور احادیث میں کہیں ایسا ذکر ہے کہ اسلام مخالف یا مسلمان مخالف یہود و نصارٰی سے تجارت منع ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام نے کافروں، یہودیوں، عیسائیوں وغیرہ کے ساتھ کاروبار جائز قراردیا ہے، بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہودیوں سے کاروباراورلین دین کا معاملہ کیا ہے۔ ہاں ان سے دوستی رکھنا اورمحبت کرنا منع ہے۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھارکھانا خریدا اوراس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھوا دی۔ (صحيح البخاري، الرهن: 2509، صحيح مسلم، المساقاة: 1603).

 اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین اورباغات یہودیوں کو ٪50 پر کاشتکاری کے لیے دے دیے تھے۔(مسلم، المساقاة:1551).

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی۔ (التعليقات الرضية: جلد نمبر 2، صفحہ نمبر 442).

لیکن اگر یہودی، عیسائی اورکافر وغیرہ مسلمانوں کے ساتھ تجارت کرکے حاصل ہونے والی آمدنی مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں، اس آمدنی سے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے جنگی سازوں سامان خریدیں یا کسی اور ذرائع سے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں تواس صورت میں ان کے ساتھ  تجارت منع ہو گی۔

اسی طرح اگر تمام مسلمان یا مسلمانوں کی اکثریت اتحاد کرکے اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ تجارت ختم کرنے کا عزم کرتی ہے اورعملی طورپر بھی تجارت ختم کر دیتے ہیں تاکہ یہودیوں کی معیشت کمزور ہو تو اس صورت میں بھی آپ کو چاہیے کہ یہودیوں کے ساتھ ہرایسا لین دین ختم کردیں جس سے ان کی معیشت مضبوط ہوتی ہواوراس عمل پرآپ کو ان شاء اللہ اجرو ثواب بھی ملے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.  (التوبة : 120).

یہ اس لیے کہ وہ، اللہ کے راستے میں انہیں نہ کوئی پیاس پہنچتی ہےاور نہ کوئی تکان اورنہ کوئی بھوک اورنہ کسی ایسی جگہ پرقدم رکھتے ہیں جو کافروں کو غصہ دلائے اورنہ کسی دشمن سے کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں، مگر اس کے بدلے ان کے لیے ایک نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے۔ یقنا اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

مندرجہ بالا آیت سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان دشمن کی کوئی زمین یا شہر فتح کریں، یا انہیں قتل یا قید کریں، یا مال غنیمت حاصل کریں، یا انہیں کوئی نقصان پہنچائیں، غرض ان سے حاصل ہونے والی ہر کامیابی اورہر نیک عمل لکھ دیا جاتا ہےاور اس کا اجرانہیں ضرورملے گا، کیونکہ ان کے یہ تمام اعمال اللہ کی خاطر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری میں ہیں اور اسی کا نام احسان اورنیکی ہے اوراللہ تعالی احسان کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔

 

والله أعلم بالصواب.

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی