الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بھی نوافل ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض کی کمی پوری کرنے والے نوافل کی تخصیص نہیں کی ہے۔ لہذا یہ نوافل بھی اس حدیث مبارکہ کے عموم میں آ جائیں گے،اور یہ بھی فرائض کی کمی کو پورا کریں گے۔ سیدنا فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ " (ترمذی:413، قا ل الألباني صحيح) قیامت کے دن سب سے پہلے بندوں کے جس عمل کا حساب لیا جائے گا وہ ان کی نماز ہے، اگر وہ درست ہوئی تو یقیناً و ہ کامیاب اورسرخ رو ہوگا اور اگر نماز خراب ہوئی تو ناکام و نامراد ہوگا، پھر اگر فرائض میں کچھ کوتاہی رہی ہو تو اللہ عزو جل فرمائے گا دیکھو کیا میرے بندے کے نامہ اعمال میں کچھ نوافل ہیں کہ اس کے ذریعہ فرائض کی کمی پوری کی جاسکے ؟ پھر اس کے سارے اعمال کا حساب اس طریقے پر ہوگا۔ لیکن یاد رہے کہ رضائے الہی میں سبقت لے جانے اور الہی قربت کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ نوافل ہیں ، جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔۔۔(صحیح بخاری :6502) لہذا ہر مومن بندہ کو چاہئے کہ نوافل میں خاص کر وہ نوافل جو فرائض کے آگے پیچھے ہیں کوتاہی نہ کرے اور یہ کہہ کر پیچھا نہ چھڑائے کہ یہ فرائض میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی ان کے چھوڑنے میں کوئی گناہ ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ