سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا قربانی کی دعا زبان سے ادا کی جائے گی؟

  • 4566
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-22
  • مشاہدات : 216

سوال

ہم قربانی کرتے وقت دعا کے الفاظ زبان سے ادا کریں یا پھر دل میں ہی پڑھ لیے جائیں کافی ہیں؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کی دعا زبان سے پڑھا کرتے تھے اس لیے یہ دعا زبان سے پڑھی جائے گی۔

دعا کے مسنون الفاظ درج ذیل ہیں:

بسم الله، والله أكبر، اللهم هذا منك ولك، وهذا عني

( اے اللہ تیرے نام کے ساتھ (میں اسے ذبح کرتا ہوں)اور اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ! یہ تیری ہی عطا ہے اور خالص تیرے ہی لیے ہے، اور یہ میری طرف سے (قربانی) ہے)۔ (إرواء الغليل: 1152)

مندرجہ بالا الفاظ میں سے بسم الله، والله أكبر پڑھنا ضروری ہیں، اس کے بعد والے الفاظ اللهم هذا منك ولك، وهذا عني پڑھنے بہتر ہیں، پڑھنے چاہیےلیکن ضروری نہیں ہیں۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دو مینڈھے قربانی کے موقع پر ذبح کیے جو کالے اور سفید رنگ کے تھے، ان کے سینگ بھی تھے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا اور تکبیر بھی کہی (یعنی بسم الله، والله أكبر کہا)، اور ذبح كرتے وقت اپنے پاؤں کو اس کی گردن پر رکھا۔ (صحيح البخاري، الأضاحي: 5565، صحيح مسلم، الأضاحي: 1966)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا، اسے لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا گیا تا کہ آپ اسے قربان کر سکیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سيده عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو مخاطب کر کے فرمایا کہ: چھری لاؤ پھر فرمانے لگے: اسے پتھر پرتیز کرو (سيده عا‏ئشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں ) میں نے ایسا ہی کیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ چھری لے لی اور مینڈھے کوپکڑ کرلٹایا اور بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ (میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں،  اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، محمد کی آل اورامت محمدیہ کی جانب سے قبول فرما) پڑھتے ہوئے اللہ کے راستے میں قربان کر دیا۔ (مسلم، الأضاحي: 1967)

مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کرتے وقت دعا کے الفاظ زبان سے ادا کیے جائیں گے۔

والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

تبصرے