سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

سورۃ اللیل کی آیت وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى منسوخ ہے

  • 4404
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 89

سوال

رہنمائی فرمائیں کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث نمبر (3761 ) میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ اللیل کی آیت اس طرح (وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى. وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى)سکھائی تھی، جبکہ قرآن مجید کے موجودہ تمام نسخوں میں مذکورہ آیت مختلف الفاظ سے موجود ہے۔جس کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ شام والوں نے اس آیت کو بدلا ہے۔ اس سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یا تو موجودہ قرآن (نعوذباللہ) تحریف شدہ ہے یا پھر بخاری شریف میں غلط روایت درج ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مندرجہ بالا حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، أصحاب النبي صلي الله عليه وسلم:  3742،  3743، 3761، (وتفسیر القرآن: 4943، 4944)،(والاستئذان: 6278، صحیح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها: 824) 
کسی بھی دینی مسئلہ کو صحیح طریقے سے جاننے اور سمجھنے کے لیے اس مسئلہ سے متعلقہ تمام نصوص کو اکٹھا کرنا ضروری ہے، کسی ایک آیت یا حدیث کو لے کر نتیجہ اخذ کر لینے سے متعدد خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
قرآنی آیت اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﱠ(الحجر: 9)
بے شک ہم  نے ہی اس نصیحت کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔
اسی طرح امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی ذکر کردہ تمام احادیث کے صحیح ہونے پر امت کا اتفاق ہے، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 (أجمعت الأمة على صحة هذين الكتابين ووجوب العمل بأحاديثهما)تهذيب الأسماء واللغات: 1/73)
ان دونوں کتابوں (بخاری ومسلم) کے صحیح ہونے، اور ان کی احادیث پر عمل کرنے کے وجوب پر امت کا اتفاق ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
( ليس تحت أديم السماء كتاب أصح من البخاري ومسلم بعد القرآن ) (مجموع الفتاوى: 18/74 )
آسمان کے نیچے قرآن مجید کے بعد بخاری ومسلم سے زیادہ صحیح کتاب کوئی بھی نہیں ہے۔
اس لیے یہ بات مسلمہ ہے کہ قرآن مجید بھی حفاظت الہی سے محفوظ ہے اور بخاری و مسلم کی احادیث بھی صحیح ہیں۔ رہی بات عبد اللہ بن مسعود اور ابو درداء  رضی اللہ عنہما کی حدیث کی، تو اس کا جواب امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں دیا ہے، وہ امام مازری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:  
کہ اس جیسی حدیثوں کے بارے میں یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ پہلے قرآن انہی الفاظ وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى کے ساتھ نازل ہوا تھا پھر یہ الفاظ وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى نازل ہوگئے اور پہلے والے منسوخ کر دیے گئے اور مذکورہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو نسخ کا علم نہیں تھا اس لیے وہ پہلے نازل ہونے والے الفاظ کے ساتھ ہی تلاوت کرتے رہے۔
امام مازری رحمہ اللہ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: کہ شاید اس طرح کا واقعہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قرآن مجید لکھوانے سے پہلےپیش آیا ہو گا کیوں کہ مصاحف عثمانیہ سے تمام منسوخ آیات ختم کر دی گئی تھیں لہذا ان مصاحف کے ظہور کے بعد اس طرح کا اختلاف ہونا ممکن نہیں ہے (المنهاج 6/109) 


والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی