الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دین اسلام آسانی اور وسعت کا دین ہے یہ اپنے نام لیواؤں پرعبادات ومعاملات میں ان کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالتا ہے۔ اسلام میں کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جو مسلمانوں کی استطاعت سے بڑھ کر ہو اور اسلام نے انہیں پابند کیا ہو کہ یہ لازمی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حج کی استطاعت رکھنے والے پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض کیا ہے، فرمایا: وللہ علی الناس حج البیت من استطاع إلیہ سبیلا (آل عمران:97) ‘‘اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں پر جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھتے ہیں اس گھر (بیت اللہ) کا حج فرض کیا۔’’ حضرت ابن عباسؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ (الحج مرۃ واحدۃ فمن زاد فھو تطوع) (سنن ابوداؤد:1514) ’’ حج ایک مرتبہ ( فرض) ہے اور جس نے زیادہ کیا تو وہ نفلی حج ہے۔‘‘ اسی طرح عمرہ چونکہ ایک نفلی عبادت ہے اس کے وجوب پرکوئی نص وارد نہیں لہٰذا کوئی حدود حرم میں ہو یا باہر کسی پربھی عمرہ فرض نہیں جب چاہے کوئی عمرہ کرے یا نہ کرے اسے اس نفلی عبادت کا اختیار ہے۔
وباللہ التوفیق
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ