الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسی مخلوق کو عربی میں مخنث اور اردو میں ہیجڑا یا کھسرا کہا جاتا ہے۔ اور ایسی خلقت والے لوگ آج کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی موجود تھے،اور شریعت میں ایسے لوگوں کے حوالے سے تفصیلی راہنمائی موجود ہے،فقہائے کرام نے اپنی کتب فقہ میں ایسے لوگوں کے حوالے سے تفصیلی مباحث بیان فرمائی ہیں۔شیخ صالح المنجد سے مخنث کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اول: 1 ـ خنثى لغت عرب ميں اس شخص كو كہتے ہيں جو نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہى خالص عورت، يا پھر وہ شخص جس ميں مرد و عورت دونوں كے اعضاء ہوں ، يہ خنث سے ماخوذ ہے جس كا معنىٰ نرمى اور كسر ہے، كہا جاتا ہے خنثت الشئ فتخنث، يعنى: ميں نے اسے نرم كيا تو وہ نرم ہو گئى، اور الخنث اسم ہے. اور اصطلاح ميں: اس شخص كو كہتے ہيں جس ميں مرد و عورت دونوں كے آلہ تناسل ہوں، يا پھر جسے اصل ميں كچھ بھى نہ ہو، اور صرف پيشاب نكلنے والا سوراخ ہو. 2 ـ اور المخنث: نون پر زبر كے ساتھ: اس كو كہتے ہيں جو كلام اور حركات و سكنات اور نظر ميں عورت كى طرح نرمى ركھے، اس كى دو قسميں ہيں: پہلى قسم: جو پيدائشى طور پر ہى ايسا ہو، اس پر كوئى گناہ نہيں. دوسرى قسم: جو پيدائشى تو ايسا نہيں، بلكہ حركات و سكنات اور كلام ميں عورتوں سے مشابہت اختيار كرے، تو ايسے شخص كے متعلق صحيح احاديث ميں لعنت وارد ہے، خنثى كے برخلاف مخنث كے ذكر يعنى نر ہونے ميں كوئى اخفاء نہيں ہے. 3 ـ خنثى كى دو قسميں ہيں: منثى مشكل اور خنثى غير مشكل. ا ـ خنثى غير مشكل: جس ميں مرد يا عورت كى علامات پائى جائيں، اور يہ معلوم ہو جائے كہ يہ مرد ہے يا عورت، تو يہ خنثى مشكل نہيں ہو گا، بلكہ يہ مرد ہے اور اس ميں زائد خلقت پائى جاتى ہے، يا پھر يہ عورت ہو گى جس ميں كچھ زائد اشياء ہيں، اور اس كے متعلق اس كى وراثت اور باقى سارے احكام ميں اس كا حكم اس كے مطابق ہو گا جس طرح كى علامات ظاہر ہونگى. ب ـ خنثى مشكل: يہ وہ ہے جس ميں نہ تو مرد اور نہ ہى عورت كى علامات ظاہر ہوں، اور يہ معلوم نہ ہو سكے كہ يہ مرد ہے يا عورت، يا پھر اس كى علامات ميں تعارض پايا جائے. تو اس سے يہ حاصل ہوا كہ خنثى مشكل كى دو قسميں ہيں: ايك تو وہ جس كو دونوں آلے ہوں، اور اس ميں علامات بھى برابر ہوں، اور ايك ايسى قسم جس ميں دونوں ميں سے كوئى بھى آلہ نہ ہو بلكہ صرف سوراخ ہو. 4 ـ جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ اگر بلوغت سے قبل خنثى ذكر سے پيشاب كرے تو يہ بچہ ہوگا، اور اگر فرج سے پيشاب كرے تو يہ بچى ہے. اور بلوغت كے بعد درج ذيل اسباب ميں سے كسى ايك سے واضح ہو جائيگا: اگر تو اس كى داڑھى آ گئى، يا پھر ذكر سے منى ٹپكى، يا پھر كى عورت كو حاملہ كر ديا، يا اس تك پہنچ گيا تو يہ مرد ہے، اور اسى طرح اس ميں بہادرى و شجاعت كا آنا، اور دشمن پر حملہ آور ہونا بھى اس كى مردانگى كى دليل ہے، جيسا كہ علامہ سيوطى نے اسنوى سے نقل كيا ہے. اور اگر اس كے پستان ظاہر ہو گئے، يا اس سے دودھ نكل آيا، يا پھر حيض آ گيا، يا اس سےجماع كرنا ممكن ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر اسے ولادت بھى ہو جائے تو يہ عورت كى قطعيت پر دلالت كرتى ہے، اسے باقى سب معارض علامات پر مقدم كيا جائےگا. اور رہا ميلان كا مسئلہ تو اگر ان سابقہ نشانيوں سے عاجز ہو تو پھر ميلان سے استدلال كيا جائيگا، چنانچہ اگر وہ مردوں كى طرف مائل ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر وہ عورتوں كى طرف مائل ہو تو يہ مرد ہے، اور اگر وہ كہے كہ ميں دونوں كى طرف ايك جيسا ہى مائل ہوں، يا پھر ميں دونوں ميں سے كسى كى طرف بھى مائل نہيں تو پھر يہ مشكل ہے. سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں: فقہ ميں جہاں بھى خنثى كو مطلق بيان كيا جائے تو اس سے خنثى مشكل مراد ہے. انتہى مختصرا ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 21 - 23 ). دوم: الخنثى: ہمارى مراد خنثى مشكل ہے، اس كو دونوں آلے يعنى مرد اور عورت دوں كے عضو ہوں تو اس كى دو قسميں ہيں: ايك تو ايسى قسم ہے جس ميں يہ راجح نہيں كہ وہ دونوں ميں سے كونسى جنس ہے، اور دوسرى وہ قسم جس كے بارہ ميں معلوم ہو جائے اس كى علامات ميں: ميلان شامل ہے، چنانچہ اگر تو وہ عورت كى طرف مائل ہو تو وہ مرد ہے، اور اگر اس كا ميلان مردوں كى جانب ہے تو وہ عورت ہو گى. اور جنسى طور پر عاجز وہ شخص ہو گا جس كا عضو تناسل تو ہے ليكن كسى بيمارى يا نفسياتى يا عصبى يا كسى اور سبب كے باعث وہ جماع كى طاقت نہ ركھتا ہو، جس كے نتيجہ ميں نہ تو اس سے جماع ہو گا، اور نہ ہى استمتاع اور نہ ہى اولاد پيدا ہو گى. اس سے يہ واضح ہوا كہ جنسى طور پر ہر عاجز شخص ہيجڑا يعنى خنثى نہيں ہوتا، بلكہ ہو سكتا ہے وہ كسى بيمارى كى علت كے سبب جنسى عاجز ہو، اور اس كا تخنث كے ساتھ كوئى تعلق ہى نہيں، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ مخنث يعنى ہيجڑا ہو ليكن وہ جنسى طور پر وطئ كرنے پر قادر ہو. ا ـ رہا ہيجڑے كى شادى كا مسئلہ تو اس كے متعلق عرض ہے كہ: اگر تو وہ غير مشكل ہے تو اس كى حالت كے مطابق اس كى دوسرى جنس سے شادى كى جائيگا، اور اگر وہ خنثى مشكل ہے تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، اس كا سبب يہ ہے كہ احتمال ہے كہ وہ مرد ہو تو مرد مرد سے كيسے شادى كر سكتا ہے ؟! اور يہ بھى احتمال ہے كہ وہ عورت ہو تو عورت عورت سے كيسے شادى كر سكتى ہے؟! اور اگر وہ عورت كى طرف مائل ہو اور مرد ہونے كا دعوى كرے تو يہ اس كے مرد ہونے كى ترجيح كى علامت ہے، اور اسى طرح اگر وہ مرد كى طرف مائل ہو اور عورت ہونے كا دعوى كرے تو وہ عورت ہے. ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: " خنثى يا تو مشكل ہو گا يا پھر غير مشكل، اگر وہ غير مشكل ہو اور اس ميں مردوں كى علامات ظاہر ہوں تو مرد ہے اور اسے مردوں كے احكام حاصل ہونگے، يا پھر اس ميں عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو وہ عورت ہے اور اسے عورتوں كے احكام حاصل ہوں گے. اور اگر وہ خنثى مشكل ہے اس ميں نہ تو مردوں اور نہ ہى عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو اس كے نكاح ميں ہمارے اصحاب كا اختلاف ہے: خرقى كا كہنا ہے كہ اس ميں اس كا قول مرجع ہوگا اور اس كے قول كو مانا جائيگا، اگر تو وہ كہتا ہے كہ وہ مرد ہے، اور اس كى طبيعت عورتوں سے نكاح كى طرف مائل ہوتى ہے تو اسے عورت سے نكاح كا حق حاصل ہے. اور اگر وہ يہ بيان كرے كہ وہ عورت ہے اور اس كى طبيعت مردوں كى طرف مائل ہوتى ہے تو اس كى مرد سے شادى كى جائيگى؛ كيونكہ يہ ايسا معنى ہے جس تك اس كے ذريعہ ہى پہنچا جا سكتا ہے، اور اس ميں كسى دوسرے كو ايجاب كا حق حاصل نہيں، تو بالكل اس كا قول قبول ہو گا جس طرح عورت كا حيض اور عدت ميں قبول كيا جاتا ہے، اور وہ اپنے آپ كو جانتا ہے كہ اس كى طبيعت اور شہوت كس جنس كى طرف مائل ہوتى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حيوانات ميں عادت بنائى ہے كہ مذكر مؤنث كى طرف مائل ہوتا ہے، اور مؤنث مذكر كى طرف مائل ہوتا ہے. اور يہ ميلان نفس اور شہوت ميں ايك ايسا معاملہ ہے جس پر كوئى دوسرا مطلع نہيں ہو سكتا صرف صاحب ميلان اور شہوت كو پتہ چلتا ہے، اور اس كى ظاہرى علامات كى معرفت ہمارے ليے مشكل ہے، اس ليے باطنى امور ميں جو اس كے ساتھ مخصوص ہيں ميں اس كے حكم كى طرف رجوع كيا جائيگا، يعنى اس كى بات مانى جائيگى. ديكھيں: المغنى ( 7 / 319 ). اور يہ كہنا كہ خنثى مشكل كى شادى صحيح نہيں يہ جمہور علماء كا قول ہے، اگر وہ اپنى طبيعت ميں ميلان اور شہوت ديكھے تو كيا كرے ؟ اس كا جواب يہ ہے كہ: ہم اسے كہيں گے صبر كرو، حتى كہ اللہ تعالى آپ كى حالت اس سے بہتر كر دے. شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اور نكاح كے باب ميں " خنثى مشكل " جس كا مرد اور عورت دونوں كا عضو تناسل ہو، يعنى مرد كا عضو تناسل بھى اور عورت كى شرمگاہ بھى اور يہ واضح نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت، اس طرح كہ وہ پيشاب دونوں سے كرتا ہو، اور اس ميں كوئى ايسى چيز نہ ہو جو اسے امتياز كرے كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، نہ تو وہ عورت سے شادى كرے اور نہ ہى مرد سے، عورت سے شادى اس ليے نہ كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى عورت ہو، اور عورت كى عورت سے شادى نہيں ہو سكتى، اور نہ ہى كسى مرد سے شادى كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى مرد ہو اور مرد كى مرد سے شادى نہيں ہو سكتى. وہ اسى طرح بغير شادى كے ہى رہے حتى كہ اس كا معاملہ واضح ہو جائے، اور جب واضح ہو جائے تو اگر وہ مردوں ميں ہو تو عورت سے شادى كر لے، اور اگر عورتوں ميں شامل ہو تو مرد سے شادى كر لے، يہ اس وقت تك حرام ہے جب تك اس كا معاملہ واضح نہيں ہو جاتا ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 160 ). اور شيخ رحمہ اللہ اس كو مكمل كرتے ہوئے كہتے ہيں: " اور اگر اسے شہوت ہو اور اب شرعى طور پر اس كى شادى ممنوع ہو تو وہ كيا كرے ؟ ہم اسے كہيں گے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " تم ميں سے جو كوئى بھى طاقت ركھتا ہے وہ شادى كرے كيونكہ يہ اس كى آنكھوں كو نيچا كر ديتى ہے، اور شرمگاہ كو محفوظ كرتى ہے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا وہ روزے ركھے " تو ہم اسے كہيں گے كہ تم روزے ركھو. اور اگر وہ كہتا ہے كہ: ميں روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو اسے ايسى ادويات دى جا سكتى ہيں جو اس كے معاملہ كو آسان كر دے، اور يہ قول غير مشروع طريقہ سے منى خارج كرنے كے قول سے بہتر ہے. ديكھيں: الشرح المتتع ( 12 / 161 ). ب ـ اور جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى كے متعلق عرض ہے كہ: شريعت ميں اس كے ليے كوئى مانع نہيں، ليكن اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ جس سے شادى كر رہا ہے اس كے سامنے واضح كرے كہ وہ جنسى طور پر عاجز ہے يعنى اپنى پورى حالت بيان كرے، اور اگر بيان نہيں كرتا تو گنہگار ہوگا، اور عورت كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے؛ كيونكہ استمتاع اور اولاد شادى كے عظيم مقاصد ميں شامل ہيں، اور يہ ان حقوق ميں شامل ہيں جو خاوند اور بيوى دونوں ميں مشترك ہيں " اور الموسوعۃ الفقہيۃ ميں درج ہے: " العنۃ: يعنى شہوت نہ ہونا: جمہور فقھاء كے ہاں يہ ايك ايسا عيب ہے جو ايك برس كى مہلت دينے كے بعد بيوى كو خاوند سے عليحدگى كا اختيار ديتا ہے. حنابلہ ميں سے ايك جماعت جن ميں ابو بكر اور المجد ـ يعنى ابن تيميہ ـ شامل ہيں، نے اختيار كيا ہے كہ عورت كو في الحال فسخ كا اختيار حاصل ہے. اور جمہور نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى روايت جس ميں انہوں نے شہوت سے عاجز شخص كے ليے ايك برس كى مدت مقرر كى تھى سے استدلال كيا ہے؛ اور اس ليے كہ بيوى كا مقصود تو شادى كر كے عفت و عصمت اختيار كرنا ہے، اور اس سے اس كو اپنے نفس كے ليے عفت حاصل ہو سكتى ہے، اور ايسا عقد نكاح سے مقصود كا بالكل ہى خاتمہ كر دے اس ميں عاقد كو عقد ختم كرنے كا حق حاصل ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ خريد و فروخت ميں عيب كى وجہ سے تھوڑا سا بھى مال جاتا رہے ت واس ميں اختيار ثابت ہو جاتا ہے، چنانچہ عيب كى وجہ سے بالاولى نكاح كا مقصد فوت ہو جائيگا " انتہى ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 31 / 16 ) ليكن بعض اوقات ايسى عورت جسے عمر زيادہ ہونے يا كسى مرض كى بنا پر شہوت نہ ہو تو وہ راضى ہو سكتى ہے، تو پھر خدمت اور انس و محبت اور اخراجات اور حمايت اور دوسرے مقاصد نكاحخ كے ليے اس سے شادى كرنے ميں كيا مانع ہے ؟. شيخ ابراہيم بن محمد بن سالم ضويان الحنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اور جس كو شہوت نہيں مثلا عنين اور بڑى عمر كے شخص كے ليے شادى كرنا مباح ہے؛ كيونكہ شريعت ميں اس كى ممانعت نہيں ہے. ديكھيں: منار السبيل ( 2 / 911 ). اور " العنين " وطئ سے عاجز شخص كو كہتے ہيں، اور بعض اوقات وہ وطئ كى خواہش تو ركھتا ہے ليكن وہ وطئ نہيں كر سكتا. اگر بيوى كو معلوم ہو جائے كہ خاوند جنسى طور پر كمزور ہے اور وہ اس كے ساتھ رہنے پر راضى ہو جائے بيوى كا حق فسخ ساقط ہو جائيگا. شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں: " قولہ: اور اگر اس نے كسى بھى وقت كہا كہ: ميں وطئ سے عاجز شخص پر راضى ہوئى تو مستقل طور پر اس كا اختيار ساقط ہو جاتا ہے، مثلا ايسى عورت جو وطئ كى استطاعت نہ ركھنے والے خاوند پر راضى ہو گئى، اور پھر باقى عورتوں كى طرح اس عورت كو بھى نكاح كى شہوت پيدا ہو گئى اور وہ اپنا نكاح فسخ كرنا چاہے تو ہم كہيں گے: تجھے كوئى اختيار نہيں، اور اگر وہ كہے كہ: اس وقت تو ميں اس كو پسند كرتى اور اس پر راضى تھى، ليكن اب مدت زيادہ ہو گئى ہے اور ميں اس كو نہيں چاہتى، تو ہم اسے كہيں گے: اب تجھے كوئى اختيار نہيں، كيونكہ يہ كوتاہى تيرى جانب سے ہى تھى " ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 211 ). خلاصہ يہ ہوا كہ: خنثى يعنى ہيجڑے كى اگر حقيقت حال كا علم نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت، تو اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اور اگر اس كى حالت واضح ہو كہ وہ مرد ہے: تو اس كى شادى كرنا صحيح ہے، ليكن يہ ضرورى ہے كہ اس جيسى حالت ميں ڈاكٹر سے رائے طلب كى جائے جو اس سلسلہ ميں ماہر ہو تا كہ اس كى حالت واضح كرے، اور اس سے شادى كے امكان كى حالت بھى بتا سكے. ليكن جنسى طور پر كمزور يا پھر جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى صحيح ہے، ليكن شادى سے قبل اس كو اپنى حالت بيان كرنا ضرورى ہے، اگر وہ حالت بيان اور واضح كرتا ہے تو اس كى اس كے ساتھ صحيح ہے جسے علم ہو كہ وہ اسى حالت ميں اس كے ساتھ رہ سكتى ہے، مثلاً كہ عورت بھى اسى طرح كى ہو اور اسے مردوں كى خواہش نہ ہو، ليكن نوجوان لڑكى تو شادى ميں وہى كچھ چاہتى ہے جس طرح دوسرى نوجوان لڑكى چاہتى ہے. اس ليے ہم ايسا كرنے كى نصيحت نہيں كرتے كيونكہ وہ عورت ہو سكتا ہے خيال كرے كہ وہ صبر كر لے گى، ليكن بعد ميں وہ صبر نہ كر سكے، اور حرام كے متعلق سوچنا شروع كر دے ـ اللہ اس سے محفوظ ركھے ـ تا كہ جو اسے حاصل نہيں ہو سكتا وہ حاصل كر لے. بہر حال معاملہ جو بھى ہو: ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ يہ خطرات والا كام مت كريں، اور اس جيسى حالت والے شخص سے شادى كرنا قبول كر كے اپنے آپ كو دھوكہ ميں مت ركھيں. هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ