الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات سے اجتناب کرنا چاہئے،اور ایسے نازک موضوعات پر بات نہیں کرنی چاہئے،کیونکہ ان کا مطلقاً کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم میں سے کوئی شخص بھی اپنے والدین کے فسق وفجور کے حوالے سے گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھتا ،چہ جائیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے حوالے سے بات کی جائے۔ لیکن چونکہ سوال آچکا ہے لہذا اس حوالے ادب واحترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضاحت کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے یہ ایک صحیح حدیث ہے ،جسے امام مسلم نے نقل کیا ہے۔اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔: عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: «فِي النَّارِ» ، فَلَمَّا قَفَّى دَعَاهُ، فَقَالَ: «إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ» [ صحيح مسلم ، 1 - كِتَابُ الْإِيمَانَ ، 88 - بَابُ بَيَانِ أَنَّ مِنْ مَاتَ عَلَى الْكُفْرِ فَهُوَ فِي النَّارِ، وَلَا تَنَالُهُ شَفَاعَةٌ، وَلَا تَنْفَعُهُ قَرَابَةُ الْمُقَرَّبِينَ : 347(203)] سیدنا انس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: آگ میں۔جب وہ واپس جانے کے لئے مڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا باپ اور تیرا باپ دونوں آگ میں ہیں۔ صحیح مسلم کی ہی ایک دوسری صحیح روایت میں سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ زار النبي صلى الله عليه وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله ثم قال: " استأذنت ربي في زيارة قبر أمي فأذن لي، واستأذنته في الاستغفار لها فلم يأذن لي، فزوروا القبور تذكركم بالموت" [صحيح مسلم ، 10 - كِتَابُ الْكُسُوفِ ، 36 - بَابُ اسْتِئْذَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ ، 108 - (976) ] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت فرمائی ،آپ خود بھی روئے اور ارد گرد کے تمام لوگوں کو رلا دیا ،پھر فرمایا:میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی جو اللہ نے دے دی،پھر میں نے اس کے لئے استغفار کی اجازت مانگی جو اللہ نے نہیں دی۔تم قبروں کی زیارت کیا کرو،اس سے تمہیں موت یاد آئے گی۔ جس طرح اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے مشرک والد کے لئے استغفار کی اجازت نہیں دی ،اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجازت نہیں دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث مبارکہ اپنے معنی میں انتہائی واضح اور صریح ہیں ،جن میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ اور آپ کے والدین کو زندہ کر کے مسلمان کرنے کے حوالے سے وارد تمام روایات ضعیف اور موضوع ہیں۔شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں: " كل ما ورد بإحياء والديه صلى الله عليه وسلم وإيمانهما ونجاتهما أكثره موضوع مكذوب مفترى ، وبعضه ضعيف جدا لا يصح بحال ، لاتفاق أئمة الحديث على وضعه وضعفه كالدارقطني والجوزقاني وابن شاهين والخطيب وابن عساكر وابن ناصر وابن الجوزي والسهيلي والقرطبي وجماعة " [عون المعبود12/494 باختصار، وانظر: مجموع الفتاوى4/324 .] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو زندہ کرنے،ان کے ایمان لانے اور نجات کے حوالے وارد اکثر روایات یا تو من گھڑت اور موضوع ہیں یا انتہائی ضعیف ہیں جن سے کسی حالت میں بھی استدلال نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ امام دارقطنی، امام الجوزقانی ،ابن شاهين، خطيب بغدادی ،ابن عساكر ،ابن ناصر ،ابن الجوزی ،سهيلی ،اورامام قرطبی سمیت اہل علم کی ایک جماعت کا ان روایات کے ضعف و موضوع ہونے پر اتفاق ہے۔ نیز یہ بات یاد رکھیں کہ کسی بھی شخص کی کسی نبی کے ساتھ رشتہ داری اس کی نجات کے لئے کافی نہیں ہے،جس طرح یہ رشتے داری سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے والد اور سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے کے کسی کام نہیں آسکی ،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے مختلف افراد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: يا معشر قريش اشتروا أنفسكم لا أغني عنكم من الله شيئا ، يا بني عبد مناف لا أغني عنكم من الله شيئا ، يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا ، ويا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا ، ويا فاطمة بنت محمد سليني من مالي ما شئت لا أغني عنك من الله شيئا [رواه البخاري (2753) ومسلم (206] مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں http://quran.maktoob.com/vb/quran14040/ هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ