وعلیکم السلام
علماء نے تکفیر کے مسئلے میں د وبنیادوں کو نمایاں کیا ہے ۔ پہلی بنیاد معین اور غیر معین کی تکفیر کے مابین گھومتی ہے۔ تکفیر کی دو قسمیں ہیں: ایک تکفیر معین اور دوسری تکفیر غیر معین۔ علماء تکفیر غیر معین کے قائل ہیں بلکہ مسلمانوں میں سے کسی کا بھی اس میں کوئی اختلاف مروی نہیں ہے۔ اسی طرح علماء تکفیر معین کے بھی قائل ہیں لیکن چونکہ تکفیر معین میں' تحقیق المناط' ہوتی ہے جو اجتہاد کی ایک قسم ہے لہذا یہ کام درجہ اجتہاد پر فائز مستند علماء کی ایک جماعت ہی کر سکتی ہے' ہر ایرے غیرے کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ سلفی علماء کا کہنا ہے کہ جو حضرات مستند اہل علم میں سے نہ ہوں اور پھر بھی تکفیر کرتے ہوں تو عامة الناس کے لیے ایسے تکفیری حضرات کے ساتھ بیٹھنا بھی حرام ہے۔ شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولھذا ینبغی للمسلم أن لا یتعجل فی الحکم علی الشخص المعین أو الجماعة المعینة بالکفر حتی یتأکد من وجود جمیع شروط الحکم علیہ بالکفر وانتفاء جمیع موانع التکفیر فی حقہ وھذا یجعل مسألة التکفیر المعین من مسائل الاجتھاد التی لا یحکم فیھا بالکفر علی شخص أو جماعة أو غیرھم من المعینین لا أھل العلم الراسخون فیہ لأنہ یحتاج ا لی اجتھاد من وجھین : الأول معرفة ھذا القول أوا لفعل الذی صدر من ھذا المکلف مما یدخل فی أنواع الکفر الأکبر أو لا؟ والثانی : معرفة الحکم الصحیح الذی یحکم بہ علی ھذا المکلف وھل وجدت جمیع أسباب الحکم علیہ بالکفر وانتفت جمیع الموانع من تکفیرہ أم لا...کما أنہ یحرم علی العامة وصغار طلاب العلم أن یحکموا بالکفر علی مسلم أو علی جماعة معینة من المسلمین أو علی أناس معینین من المسلمین ینتسبون الی مذھب معین دون الرجوع فی ذلک الی العلماء کما أنہ یجب علی مسلم أن یجتنب مجالسة الذین یتکلمون فی مسائل التکفیر وھم ممن یحرم علیھم ذلک لقلة علمھم.''(تسھیل العقیدة الاسلامیة : ص ٢٩٣۔٢٩٧)
''اس لیے مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ کسی معین شخص یا معین جماعت کی تکفیر میں جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اس معین شخص یا جماعت میں کفر کا حکم لگانے کے لیے جمیع شروط موجود ہوں اور تکفیر کے وجود میں تمام موانع ختم ہو جائیں ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تکفیر معین کا مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور کسی معین شخص یا جماعت یا معین ادارے وغیرہ پر کفر کا حکم وہی لگا سکتے ہیں جو راسخون فی العلم ہیں کیونکہ اس قسم کی معین تکفیر میں دو اعتبارات سے اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے:اس بات کو معلوم کرنا کہ معین مکلف سے جو قول یا فعل صادر ہوا ہے وہ کفر اکبر میں داخل ہے یا نہیں ؟اور دوسرا اس پہلو سے کہ اس صحیح حکم کی معرفت حاصل کرنا جس کا اس مکلف پر اطلاق کرنا ہے اور اس بات کو معلوم کرنا کہ اس مکلف پر کفر کا حکم جاری کرنے کے جمیع اسباب پائے جاتے ہیں اور اس کی تکفیر میں جمیع موانع ختم ہو گئے ہیں یا نہیں؟...اسی طرح عامة الناس اور چھوٹے درجے کے کسی مذہب کی طرف منسوب دینی طلباء کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ کسی مسلمان یا مسلمانوں کی معین جماعت یا مسلمانوں میں سے متعین لوگوں کی تکفیر کریں یہاںتک کہ وہ اس بارے اپنے علماء کی طرف رجوع نہ کرلیں۔ اسی طرح ایک مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ ان لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھے جو تکفیری مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر تکفیر کے مسئلے میں گفتگو ان کے قلیل علم کی وجہ سے حرام ہے۔''
تکفیر غیر معین کی مثال یوں سمجھیں کہ آپ کہتے ہیں:
٭ جوبھی مردوں سے استغاثہ کرتا ہے ' وہ مشرک ہے۔
٭ جو بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ' وہ کافر ہے۔
ایسی تکفیر جائز ہے بلکہ ایسی تکفیر تو ہر وہ شخص کر رہا ہوتا ہے جو قرآن کی تلاوت یا سنت کا مطالعہ کر رہا ہو۔ مثال کے طور پر جب ایک شخص قرآن کی آیت
'ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون' کا مطالعہ کرے گا تو وہ ایک اعتبارسے اللہ کے کلام کی تلاوت کے ساتھ تکفیربھی کررہا ہوتا ہے۔
چونکہ اللہ نے اس آیت کو مطلق بیان کیا ہے لہذا اس آیت کا مطلق معنی و مفہوم یہی ہے کہ جو شخص بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو وہ کافر ہے ۔ اب بعض صورتوں میں عملی اور مجازی کافر ہوگا یعنی ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوگا اور بعض صورتوں میں وہ حقیقی کافر ہوگا یعنی ملت اسلامیہ سے خارج ہو گا۔ پس کافر تو وہ ہے لیکن یہ تعین کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ وہ مجازی اور عملی کافر ہے یا حقیقی کافر ہے ۔شریعت کی بعض دوسری نصوص سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میں وہ عملی اور مجازی کافر ہوگا اور بعض میں حقیقی ہو گا۔پس اگر کوئی شخص اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والے حاکم یا جج کو کافر کہے اور اس کی مراد عملی اور مجازی کفر ہو تو ایسا کہنا جائز ہو گا لیکن عرف میں چونکہ کافر کے لفظ سے کفر حقیقی مراد ہوتا ہے لہذا قائل کو یہ وضاحت ضرور کرنی چاہیے کہ اس کی مراد مجازی اور عملی کفر ہے۔
تکفیر معین کو اصل میں سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے تکفیر کے مسئلے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ معین کی تکفیر تین قسم کی ہو سکتی ہیں : فرد' نوع یا جنس کی تکفیر۔ عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ معین کی تکفیر سے مراد صرف فرد واحد کی تکفیر ہے حالانکہ معین کی تکفیر میں معین نوع یا جنس یا جماعت یا گروہ کی تکفیر بھی شامل ہے۔
پس معین کی تکفیر میں شخص' جماعت' ادارہ یا گروہ وغیرہ بھی شامل ہے جیسا کہ اوپر شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ کا قول اس بارے گزر چکا ہے ۔
پس معین کی تکفیر کی مثال یوں ہوگی:
٭ یا تو آپ فرد واحد کی تکفیر کریں مثلاً یوں کہیں کہ علامہ طالب جوہری یا پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کافر ہیں۔
٭ یا معین جماعت اور گروہ کی تکفیر کریں مثلاً یوں کہیں کہ شیعہ یا ہماری پارلیمنٹ یا پاکستانی حکمران یا ہماری عدلیہ یا افواج پاکستان کافر ہیں ۔
اگر ایسی تکفیر عوام الناس یا گلی گلی پھرنے والے مفتی یا نام نہاد مفکرین اور مصلحین کریں تو ہمارے نزدیک یہ ایک فتنہ ہے' جس سے امت مسلمہ کو بچانا چاہیے۔ ہاں! اگر درجہ اجتہاد پر فائز مستند علماء کی کوئی جماعت ایسی معین تکفیر کرے تو وہ اس کے اہل بھی ہیں اور مستحق بھی۔ لیکن علماء کی اس جماعت سے معین کی تکفیر میں کسی دوسرے صاحب علم و فضل کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے(٢٠)
معین کی تکفیر چونکہ ایک اجتہادی معاملہ ہے اور اجتہاد میں قطعیت اس وقت حاصل ہوتی ہے جبکہ امت کا اس پر اجماع ہو جائے اور جب تک معین کی تکفیر پر اجماع نہ ہو اس وقت تک درجہ اجتہاد پر فائز علماء کی معین کی تکفیر علم ظن کا فائدہ دے گی لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تکفیر معین بھی 'عند العلماء' ہو گی اور 'عند اللہ ' وہ معین شخص یا گروہ کافر ہے یا نہیں ' اس کا تعین اللہ کے سوا کسی کو کرنے کا اختیار نہیں ہے اور یہ قیامت ہی کے دن واضح ہو گا
جب آپ کہتے ہیں کہ شیعہ کافر ہیں تو شاہ عبد القادر جیلانی نے شیعہ کے تقریباً ٣٢ فرقوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ہر ایک کے عقائد اور نظریات دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے بعض اہل سنت کے قریب ہیں مثلا زیدیہ فرقہ۔ اسی طرح شیعہ کے علماء اور جہلاء کے عقائد میں بھی فرق ہے لہٰذا یہ اسلوب تکفیر درست نہیں ہے۔ ہاں!یوں کہا جا سکتا ہے :
٭ جو شیعہ قرآن کو اللہ کی مکمل کتاب نہیں مانتاوہ کافر ہے۔
یہ تکفیر درست ہے لیکن یہ غیر معین کی تکفیر ہے ۔ یعنی اصولوں کی روشنی میں غیر معین کی تکفیر کی جا سکتی ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں:
٭ جوعدلیہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتی اور اپنے اس فعل کو حلال سمجھتی ہے ' وہ کافر ہے۔
یہ بھی غیر معین کی تکفیر ہے اور یہ بھی کی جا سکتی ہے لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ پاکستان کی عدلیہ کافر ہے تو یہ معین گروہ کی تکفیر ہو جائے گی جو درجہ اجتہاد پر فائز علماء کی جماعت کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ علماء کی جماعت جب کسی معین شخص یا گروہ کی تکفیر کرتی ہے تو اس کے عقیدے کے بارے میں مکمل تحقیق کرتی ہے۔ شروط و موانع تکفیر کا لحاظ رکھتی ہے۔ ظاہر و تاویل کا فرق رکھتی ہے وغیرہ ذلک۔
مثال کے طور پر آپ یہ کہتے ہیں:
٭ جو شاہ عبد القادر جیلانی سے استغاثہ کرے تو وہ مشرک ہے۔
یہ غیر معین کی تکفیر ہے لیکن بریلوی مشرک ہے یہ کہنا غلط ہے کیونکہ یہ معین کی تکفیر ہے۔ بریلویوں میں بعض ایسے حضرات بھی ہم نے دیکھے ہیں جو سلفی عقائد کے حامل ہوتے ہیں لیکن بریلوی کے نام سے اپنے تشخص کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ ویسے تو سید أحمد شہید بریلوی بھی اپنے نام کے ساتھ بریلوی لگاتے تھے۔ بعض عوام الناس کا یہ کہنا کہ حنفی مشرک ہیں ' قطعاًدرست نہیں ہے کیونکہ یہ بات معلومات ضروریہ میں سےہے کہ حنفیہ میں عقیدے میں تقلید حرام ہے۔ اسی لیے حنفیہ میں معتزلی بھی ہوتے ہیں جیسا کہ صاحب کشاف اور سلفی بھی جیسا کہ ابن أبی العز حنفی رحمہ اللہ ہیں۔ ماتریدی بھی جیسا کہ ان کی اکثریت ہے اور أشعری بھی جیسا حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ۔ اس لیے کسی کا یہ کہنا کہ حنفی مشرک ہیں درست نہیں ہے الا یہ کہ آپ ایک ایک حنفی کے پاس جا کر اس سے اس کے عقیدے کی تصدیق کر لیں۔ یہاں اصل میں' تحقیق مناط' میں غلطی کر رہے ہیں۔وہ استخراجی منطقdeductive logicسے کام لے رہے ہیں جو یونانیوں کا طریقہ تھا یعنی انہوں نے ایک بھینس کالے رنگ کی دیکھی تو یہ دعوی کر دیا کہ دنیا کی سب بھینسیں کالے رنگ کی ہوتی ہیں حالانکہ اس بات کا امکان ہے کہ دنیا میں کوئی بھینس کالے رنگ کی نہ ہو۔ہمارے ہاں عام طور معاشرے میں اسی منطق سے کام لے کر تکفیر کی جاتی ہے۔ کسی ایک بریلوی عالم دین کا ایک قول لے کر پوری جماعت پر فتوی جڑ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے ایک ممبر کے افعال و اقوال کو بنیاد بناتے ہوئے ساری پارلیمنٹ پر کفر کا فتوی تھوپ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ بات ہم سب کے علم میں ہے پارلیمنٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے لوگ بھی ہیں اور جماعت اسلامی کے اکابر بھی' جو نفاذ اسلام اور اعلائے کلمة اللہ کے دعویدار ہیں اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نمائندہ بھی پارلیمنٹ میں بعض اوقات شامل ہوتے ہیں۔ اسلامی جماعتوں کو تو چھوڑیں ' خود سیاسی جماعتوں کے عقائد و نظریات میں فرق پایا جاتا ہے۔ مسلم لیگ کی گمراہی اور معصیت اس قدر نہیں جس قدر پیپلز پارٹی کی ہے تو دونوں کا حکم ایک کیسے ہو سکتا ہے؟۔