الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ حکومت کے ملازم ہیں۔ حکومت آپ کو ذمے داری (ڈیوٹی) ادا کرنے کی تنخواہ دیتی ہے۔ آپ پر واجب ہے کہ مکمل دیانتداری کے ساتھ اپنی ذمےداری ادا کریں، حکومت نے آپ سے طے کیا ہوا ہے کہ آپ اتنے گھنٹے ڈیوٹی دیں گے اور اس کا اتنا معاوضہ آپ کو دیا جائے گا، اگر آپ ڈیوٹی پر نہیں جائیں گے تو تنخواہ کس چیز کی لیں گے؟
ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡيَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ۔ (المائدة: 1)
اے لوگوجو ایمان لائے ہو! عہد پورے کرو۔
ﱡيَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔ (الأنفال: 27)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوںمیں خیانت کرو، جب کہ تم جانتے ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلمون على شُرُوطهم۔ (صحیح الجامع: 6714)
مسلمانوں اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔
مندرجہ بالا آیات اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ معاہدے اور شرطوں کو پورا کرنا واجب ہے اور امانت میں خیانت کرنا حرام ہے۔
آپ دفتر میں نہ جائیں اور حاضری لگتی رہے، جو شخص حاضری لگانے میں آپ کی مدد کرے گا وہ بھی ناجائز کام کرے گا کیونکہ یہ غلط کام میں تعاون ہے اور غلط کام میں تعاون کرنا حرام ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
ﱡوَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (المائدة: 2)
اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
اگر آپ حکومتی قوانین کی پیروی کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر چھٹی کی درخواست دیں، آپ کی چھٹی منظور کر لی جائے کہ جب تک دفتر میں کام نہیں ہے آپ کو ڈیوٹی سے استثناء حاصل ہے تو پھر آپ ڈیوٹی سے غیرحاضر ہو سکتے ہیں۔ لیکن یادر ہے کہ چھٹی لینے کےلیے رشوت وغیرہ دینا جائز نہیں ہے۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتوی کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ