الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حائضہ عورت قرآن کریم کی زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ حائضہ کی تلاوتِ قرآن کریم کی ممانعت پر بعض روایات تو موجود ہیں لیکن وہ تمام روایات یا تو ضعیف ہیں یا ان میں حرمت کا واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " حائضہ عورت اور جنبى شخص قرآن ميں سے كچھ بھى نہ پڑھے " سنن ترمذى حديث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنى ( 1 / 117 ) سنن البيھقى ( 1 / 89 ). ليكن يہ حديث ضعيف ہے كيونكہ اسماعيل بن عياش حجازيوں سے روايت كرتے ہيں، اور اس كا حجازيوں سے روايت كرنا ضعيف ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: حديث كا علم ركھنے والوں كے ہاں بالاتفاق يہ حديث ضعيف ہے۔ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: حائضہ عورت كى تلاوت كى ممانعت ميں كوئى صريح اور صحيح نص نہيں ملتى۔ اور ان كا كہنا ہے: يہ تو معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى عورتوں كو حيض آتا تھا، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قرآن كى تلاوت سے منع نہيں كيا، جس طرح كہ انہيں ذكر و اذكار اور دعاء سے منع نہيں فرمايا۔ فلہٰذا حائضہ عورت زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ البتہ یہ امر کراہت سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ’’إني كرهت أن أذكر الله إلي علي طهر‘‘ (ابوداؤد :17) ’’بے شک مجھے یہ بات پسند ہے کہ پاکیزگی کی حالت کے سوا اللہ کا ذکر کروں۔‘‘ جہاں تک قرآن کو دیکھ کر پڑھنے کا تعلق ہے تو راجح قول کے مطابق حائضہ عورت قرآن کو دیکھ کر پڑھ تو سکتی ہے لیکن وہ قرآن مجید کو چھونے سے گریز کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾ ’’ اسے پاكبازوں كے علاوہ اور كوئى نہيں چھوتا‘‘ اس کا اس خط ميں بھى ذكر ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن حزم كو دے كر يمن كى طرف بھيجا تھا اس ميں ہے: " پاك شخص كے علاوہ قرآن مجيد كو كوئى اور نہ چھوئے " موطا امام مالك ( 1 / 199 ) سنن نسائى ( 8 / 57 ) ابن حبان حديث نمبر ( 793 ) سنن بيھقى ( 1 / 87 ) اس ليے اگر حائضہ عورت قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنا چاہے تو وہ اسے كسى منفصل چيز كے ساتھ پكڑے مثلا كسى پاك صاف كپڑے يا دستانے كے ساتھ، يا قرآن كے اوراق كسى لكڑى اور قلم وغيرہ كے ساتھ الٹائے، قرآن كى جلد كو چھونے كا حكم بھى قرآن جيسا ہى ہے۔
وبالله التوفيق
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ