مزھب۔اسلام کی بات کرو،فاتیما کو کس نے باگ فاداک سے مھروم کےا اورکس نے واپس؟ان دنون مےسے کس نے ٹھک کس نے غلط کےا
فدک مدینہ منورہ سے تین منزلوں پر واقع ایک بستی کا نام ہے۔ 7ہجری میں جب خیبر فتح ہوا تو آپﷺ مدینہ تشریف لارہے تھے تو آپﷺ نے حضرت محیصہ بن مسعود کو اہل فدک کی طرف بھیجا کہ انہیں اسلام قبول کرلینے کی دعوت دیں۔ اس کے سردار یوشع بن نون یہودی نے فدک کی آدھی آمدنی پر صلح کرلی اور اسی میں باغ فدک مسلمانوں کے قبضہ میں آیا چونکہ یہ مال لڑائی کے بغیر اور صلح کرنےکے عوض تھا اس لیےاسے مال فئی کہتے ہیں۔ او ریہ باغ آپؐ کےحصہ میں آیا۔ آپؐ اس باغ سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کرتے اور غربا میں بھی۔ آپؐ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اس باغ کامطالبہ کیا تو آپؓ نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی۔
اس سے متعلقہ روایات اس طرح ہیں:
عن عائشہ۔ أن فاطمۃ والعباس علیہما السلام أتیا أبابکر یلتمسان میراثھا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وھما یطلبان أرضیھما من فدک و سھمھما من خیبر فقال لھما ابوبکر سمعت رسو لاللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لا نورث ماترکنا صدقۃ انما یأکل آل محمد من ھذا المال قال ابوبکر واللہ لا أدع أمرا رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم يصنعه فیہ إلا صنعتہ (صحیح بخاری کتاب الفرائض بابقول النبی لا نورث ماترکنا صدقہ)
’’اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ دونوں ( رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے آپؐ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکرؓ نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہیں۔‘‘
انبیاء کی وراثت ان کی وفات کے بعد ورثا میں تقسیم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں گزر چکا ہے۔
یہی روایت حضرت ابوہریرہؓ سے بھی اس طرح مروی ہے کہ:
قال لا تقسم ورثتی دینارا ماترکت بعد نفقۃ نسائی و مؤنۃ عاملی فھو صدقۃ
’’آپؐ نے فرمایا: میرے وارث اگر میں ایک اشرفی چھوڑ جاؤں تو اس کو تقسیم نہیں کرسکتے بلکہ جو جائیداد میں چھوڑ جاؤں اس میں سے میری بیویوں اور عملہ کا خرچہ نکال کر جو بچے وہ سب اللہ کی راہ میں خیرات کیا جائے۔‘‘ (سنن ابی داؤد کتاب الخراج وإلا مارۃ والفئی باب فی صفا یارسول اللہ من الأموال 2974)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتا جو کہ ان کی اولاد وغیرہ میں تقسیم ہوں۔ اس کی تائید معروف شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں بروایت ابوالبختری امام ابوعبداللہ جعفر صادق سے اس معنی کی روایت نقل کی ہے:
عن ابی عبداللہ قال ان العلماء ورثۃ الأنبیاء و ذالک ان الانبیاء ................ دراھما ولا دینارا وانما ورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ بیشئ منھا اخذ بحظ وافر (اصول کافی:1؍32 باب صفۃ العلم وفضلہ)
حضرت جعفر صادق نے فرمایا: ہر گاہ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی حدیثیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا۔‘‘
اور یہ صرف انبیاء کی اولاد ہی کے لیے قانون نہیں بلکہ ان کی بیویوں اور دوسرے رشتہ داروں کے لیےبھی ہے کہ انبیاء کی وراثت سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ کی وفات کے بعد امہات المؤمنینؓ نے جب آپؐ کا ترکہ کے لیے ارادہ کیا تو حضرت عائشہؓ نے منع کردیا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن عائشہ أن أزواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنہ مبراثھن فقالت عائشۃ ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا نورث ماترکنا صدقۃ( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقۃ)
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ ؐ کی بیویوں نے یہ ارادہ کیاکہ حضرت عثمانؓ کو ابوبکر صدیقؓ کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس وقت میں (عائشہ) ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘
مذکورہ بالا بحث سے پتہ چلا کہ انبیاء کی وراثت ان کی اولاد اور رشتہ داروں میں تقسیم نہیں ہوسکتی او ریہ انبیاء کے لیے ایک قانون تھا جس پر حضرت محمدﷺ کی ذات بھی شامل ہے۔ لہٰذا ان احادیث کی روشنی میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کو باغ فدک وراثت میں نہ دیا او راس طرح اس حدیث کے تحت امہات المؤمنین بھی آپؐ کے ترکہ سے محروم رہیں۔