سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بیوی کا اپنے شوہر کی بات ماننے کی بجائے اپنے والدین کی بات ماننا

  • 2948
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-26
  • مشاہدات : 318

سوال

عورت شوہر کی بجائے اپنی ماں کی بات مانتی ہے جس سے شوہر کی ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس عورت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو اپنے شوہر کی بات نہیں مانتی اور اکثر اس کی مخالفت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر بیوی کی ماں اور بھائیوں کی مداخلت کی وجہ سے، دونوں خاندانوں میں زبردست لڑائی ہوئی اور شوہر اور بیوی طلاق کے دہانے پر پہنچ گئے۔ وہ اپنی والدہ اور دوسروں کے ساتھ بات چیت کرتی ہے، جہاں اس کے شوہر نے اسے واضح طور پر منع کیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ بات چیت نہ کرے، کیوں کہ بیوی کی ماں اور بھائی ہمیشہ ان کی ازدواجی زندگی میں پریشانی پیدا کرتے ہیں۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیوی پر خاوند کی اطاعت فرض ہے حتی کہ اس کےلیے اپنے والدین سے بھی زیادہ خاوند کی اطاعت کرنا ضروری ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاَ يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصُومَ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَلاَ تَأْذَنَ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِه۔ (صحيح البخارى، النکاح : 5195)
كسى عورت كےليے جائز نہيں كہ وہ اپنے خاوند كى موجودگى ميں (نفلى) روزہ ركھے اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير گھر ميں كسى كو (آنے كى) اجازت بھی  نہ دے۔
سیدنا ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بیان کرتے ہیں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
إِذَا صلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَصَّنَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ بَعْلَهَا، دَخَلَتْ مِنْ أَيِّ أَبْوابِ الجَنَّةِ شَاءَتْ۔ (صحیح الجامع: 660)
جب عورت اپنى پانچ نمازيں ادا كرے، رمضان كے روزے ركھے، اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے اور اپنے خاوند كى اطاعت كرے تو اسے كہا جائے گا: تم جنت كے جس دروازے سے بھى چاہو، داخل ہو جاؤ۔
سیدنا معاذ رضى اللہ تعالى عنہ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ علیہ وسلم كو سجدہ كيا۔ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: معاذ يہ كيا ہے؟ تو انہوں نے جواب ديا: ميں جب شام گيا تو میں نے ديكھا كہ وہ لوگ اپنے پادريوں اور بشپ كو سجدہ كرتے ہيں تو ميرے دل ميں خیال آيا كہ ہميں  بھی رسول كريم صلى اللہ علیہ وسلم  کو سجدہ کرنا چاہیے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا، وَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا وَهِيَ عَلَى قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعْه۔ (سنن ابن ماجه، النكاح: 1853) (صحيح)
تم ايسا مت كرو، اگر ميں كسى كو حكم ديتا كہ وہ غير اللہ كو سجدہ كرے تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كيا كرے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد صلى اللہ علیہ وسلم كى جان ہے عورت اس وقت تک اپنے رب كا حق ادا نہيں كر سكتى جب تک كہ وہ اپنے خاوند كا حق ادا نہ كر دے، اگر خاوند اسے بلائے اور بيوى پالان پر ہو تو بھی اسے انكار نہيں كرنا چاہيے۔
اگر عورت اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی ہے تو بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جائے گی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب اپنے والدین کے گھر جانا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی اور عرض کیا:
أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ؟۔ (صحیح البخاري، المغازی: 4141) ، صحیح مسلم، التوبة: 2770)
کیا آپ مجھے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں؟
ليكن خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كو اس كے والدين اور دوسرے محرم رشتہ داروں سے ملنے كى اجازت دے اور منع نہ کرے، كيونكہ بيوى کو اپنے والدين اور محرم رشتہ داروں سے ملنے سے روكنے ميں قطع تعلقى ہوتى ہے اور ہو سكتا ہے كہ وہ خاوند کے روکنے کی وجہ سے اس كى مخالفت كرنا شروع كر دے اور خاوند كى بات ہى نہ مانے۔
جب عورت کو  اس كے والدين سے ملنے كى اجازت دى جائے گى اور وہ اپنے دوسرے محرم رشتہ داروں كو بھی ملنے جا سكے گى تو اسے خوشى حاصل ہوگى،  اس کے خيالات اچھے ہونگے، اس كى اولاد بھى خوش ہوگى اور اس سب كا فائدہ خاوند اور خاندان كو ہوگا۔
لیکن اگر ان سے ملنے ميں يقينى نقصان اور ضرر ہوتا ہو تو پھر روكا جا سكتا ہے، لیکن بالکل قطع تعلقی نہیں کی جائے گی، سلام اور حال چال وغیرہ کے بارے میں بات چیت کی اجازت دی جائے گی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بُلُّوا أَرْحَامَكُمْ وَلَوْ بِالسَّلَام۔ (صحيح الجامع: 2838)
کہ تم صلہ رحمی کرو اگرچہ صرف السلام علیکم ہی کہو۔

والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
03. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ

تبصرے