سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

طلاق لکھی لیکن دستخط نہیں کیے تو کیا طلاق واقع ہوگی؟

  • 2946
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 146

سوال

میں نے اپنے بیوی کو تحریری طور پہلی طلاق دی، لیکن پندرہ دن بعد ہماری فون کال کے ذریعے صلح ہو گئی، میری بیوی میرے ساتھ آنے کو تیار ہو گئی، لیکن جب میں اسے واپس لینے گیا تو اس کے گھر والوں نے کہا کہ ہم پہلے پنچایت کریں گے پھر بھیجیں گے، جس پر مجھے غصہ آیا ، میں نے کاغذ پر دوسری طلاق لکھی اور پرنٹ نکال لیا اور سوچا کہ اگر انہوں نے میری بیوی کو نہ بھیجا تو پھر دستخط کروں گا، ابھی ضرورت نہیں ہے۔ اس بات کا علم صرف مجھے ہی ہے کہ میں نے دوسری طلاق لکھ کر اپنے پاس رکھی ہے۔ میں نے اس پر دستخط نہیں کیے اور نہ ہی کوئی تاریخ درج کی، صرف یہ سوچا تھا کہ اگر ضرورت پڑی اور معاملہ بگڑا تو دستخط کر کے بھیج دوں گا، لیکن بعد میں میرے سسرال والے میری بیوی کو بھیجنے پر رضامند ہو گئے۔ میں نے وہ کاغذ پھاڑ کر ضائع کر دیا اور اپنی بیوی کو گھر لے آیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں دوسری طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟ اگر ہو گئی ہے تو مجھے کیا کرنا ہو گا؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر انسان اپنی بیوی کو بول کر طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح اگر طلاق بالکل واضح لفظوں میں لکھ کر بھیج دیتاہے ، اور اس کی نیت بھی طلاق دینے کی ہے، تو بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، کیونکہ انسان لکھ کر بھی اپنے ما فی الضمیر کا ہی اظہار کرتا ہے، گویا کہ انسان کا قلم بھی اس کی زبان کی طرح ہے۔

مذکورہ سوال میں  آپ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق تحریری طور پر بھیج دی تھی ، لہذا  بلاشبہ ایک طلاق واقع ہو چکی ہے، آپ کو عدت کے دوران رجوع کرنے کا اختیار تھا ، آپ نے بذریعہ فون کال رجوع کر لیا، آپ کے سسرال والوں کو چاہیے تھا کہ وہ آپ کی بیوی کو آپ کے ساتھ بھیج دیتے، کیوں کہ رجوع کرنے کے بعد خاوند اپنی بیوی کا زیاد حق رکھتا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا (البقرة: 228)
اور ان کے خاوند اس مدت میں انہیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں، اگر وہ (معاملہ) درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔
اگر سسرال اور آپ کے مابین کچھ معاملات محل طلب تھے تو سب کو چاہیے تھا کہ سارے مل بیٹھ کر اس کا حل نکالتے، آپ پر بھی ضروری تھا کہ آپ بھی ان کے ساتھ اس سلسلہ میں تعاون کرتے، تاکہ دوبارہ طلاق کے اسباب  پیدا نہ ہوں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا (النساء:35)
اگر ان دونوں (خاوند اور بیوی کے درمیان) مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کے گھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سےمقرر کرو، اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔
دوسری طلاق:
کاغذ پر دوسری طلاق لکھتے وقت اگر آپ کی طلاق کی نیت تھی تو طلاق واقع ہو چکی ہے، اگر آپ نے صرف طلاق نامہ تیار کیا تھا، لکھتے وقت طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھا، بلکہ آپ کی نیت یہ تھی کہ اگر سسرال والے بیوی کو نہیں بھیجیں گے تو طلاق نامے پر دستخط کر کے طلاق دے دوں گا، تو پھر آپ کی دوسری طلاق نہیں ہوئی۔

والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

تبصرے