وعلیکم السلام امر تکوینی اور امر تقدیری ایک ہی چیز ہیں البتہ امر تکوینی اور امر تشریعی میں فرق ہے۔ اہل سنت والجماعت نے اللہ تعالی کی صفت ارادہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک ارادہ کونیہ خلقیہ اور دوسرا ارادہ شرعیہ طلبیہ۔ ارادہ کونیہ کا تعلق تخلیق سے ہے یعنی اللہ تعالی جو چاہتے ہیں پیدا کرتے ہیں، یا جسے چاہتے ہیں، وجود عطا فرماتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں اسے پیدا نہیں کرتے یا وجود نہیں بخشتے۔ ارادہ شرعیہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کیا چاہتے ہیں یا اللہ کی طلب کیا ہے یا مطالبہ کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی اپنے تمام بندوں سے اطاعت چاہتے ہیں۔ ارادہ کونیہ میں انسان کا اختیار نہیں ہے جیسا کہ انسان کا اس میں کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس دنیا میں آتا یا نہ آتا جبکہ ارادہ شرعیہ میں انسان کا اختیار ہے اور جبر نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے تمام انسانوں سے چاہا کہ وہ انبیاء پر ایمان لائیں لیکن کچھ ایمان لائے اور کچھ نہ لائے۔ پس جو ایمان لائے انہوں نے ارادہ شرعیہ کی تکمیل کی اور جو ایمان نہ لائے انہوں نے ارادہ شرعیہ کا انکار کیا۔ امر تقدیری، امر تکوینی ہی ہے۔ جو اللہ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ہو کر رہنا ہے اور اس میں انسان کا اختیار نہیں ہے اور جسے اللہ نے وجود بخشنا ہے، اس میں بھی انسان کا اختیار نہیں ہے مثلا دنیا میں شر ہونا چاہیے یا نہیں، شیطان ہو یا نہ ہو، وغیرہ ذلک یہ اللہ کے فیصلے ہیں جن میں انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔