سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کیا اہل حدیث قیاس کو مانتے ہیں؟

  • 2199
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-22
  • مشاہدات : 100

سوال

کیا اہلحدیث قیاس کو مانتے ہیں؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ تعالی نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے، لہذا اگر کسی کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مخالف ہوگی تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے کسی کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (59)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کاحکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینےوالے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تواسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔

اور فرمایا:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الحشر: 7).

اور رسول تمھیں جو کچھ دےتو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔

اور فرمايا:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا (الأحزاب: 36).

اور کبھی بھی نہ کسی مومن مردکا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقینا وہ گمراہ ہو گیا، واضح گمراہ ہونا۔

اور فرمايا:

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (الأعراف: 3).

اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔

اور فرمايا:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور: 63).

سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آ پہنچے، یا انہیں دردناک عذاب آ پہنچے۔

1. اللہ تعالی کی اطاعت کرنے سے مرادیہ ہے کہ قرآن مجید کی اطاعت کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اطاعت ہے۔

2. سنت کی اطاعت بھی درحقیقت اللہ تعالی کی ہی اطاعت ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی قرآن مجید کی طرح وحی ہے،  تو جیسے قرآن کی اطاعت کرنا ضروری ہے ویسے ہی سنت رسول کی اطاعت کرنا بھی ضروری ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے:

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (النساء:80)

جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے اللہ تعالی کی فرماں برداری کی اور جس نے منہ موڑا تو ہم نےتجھے ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔

اور فرمایا:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم: 3-4)

اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔

 سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي (صحيح البخاري، الأحكام: 7137)

 جس نے میری اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا اللہ کی نافرمانی کی۔ جس نے میرے امیر کی بات مانی اس نے میری بات مانی اور جس نے میرے امیر کی خلاف ورزی کی اس نے گویا میری خلاف ورزی کی۔

 

1. اہل حدیث تمام آئمہ کرام کا احترام کرتے ہیں، چاہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہوں یا امام مالک رحمہ اللہ،  امام شافعی رحمہ اللہ ہوں یا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یا ان کے علاوہ کوئی بھی عالم دین جو سلف صالحین کے منہج کو اختیار کرنے والا ہو قابل قدر ہے، لیکن ہم کسی ایک کی اندھی تقلید کو جائز نہیں سمجھتے، بلکہ  کسی بھی امام کی بات اگر حدیث کے موافق ہے تو ہم اس کو بخوشی تسلیم کرتے ہیں اور اس پرعمل کرتے ہیں،  لیکن اگر کسی امام کا قول واضح اور صحیح حدیث کے خلاف ہو تو ہم اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ حدیث پر عمل کرنا واجب سمجھتے ہیں، کیونکہ ہمیں قرآن و حدیث کی پیروی کرنے کاحکم دیا گیا ہے اور اسی کی پیروی میں ہی دنیاو آخرت کی بھلائی ہے۔

2. اہل حدیث قیاس کو بھی معتبر دلیل مانتے ہیں، بلکہ بہت سے شرعی احکامات کی دلیل قیاس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کئی ایک موقعوں پر قیاس کیا ہے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی قیاس کیا کرتے تھے ۔

والله أعلم بالصواب. 

محدث فتوی کمیٹی

تبصرے