الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرة: 45)
اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو اور بلاشبہ وہ یقینا بہت بڑی ہے مگر ان عاجزی کرنے والوں پر۔
اور فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرة: 153)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
1. یعنی کسی بھی مصیبت کے برداشت کرنے میں ان دو چیزوں کا سہارا لو۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جب کوئی غم لاحق ہوتا تو نماز پڑھنے لگتے تھے۔ (سنن أبي داود، التطوع: 1319) (صحيح)
اسی طرح ایک او ر مقام پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الأعراف: 128)
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، بے شک زمین اللہ کی ہے، وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے بناتا ہے اوراچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔
1. فرعون کی دھمکیوں پر موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو تسلی دینا ضروری سمجھا، چنانچہ انھیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور صبر کرنے کی تلقین فرمائی، جس پر انھوں نے ظالموں سے پناہ کی وہ دعا لازم کر لی جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ یونس میں ذکر فرمائی ہے : [ یونس : ۸۵، ۸۶ ] موسیٰ علیہ السلام نے انھیں تسلی دیتے ہوئے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ آج اگر مصر پر فرعون حکمران ہے تو کل اللہ تعالیٰ تمھیں اس کی سرزمین کا وارث، یعنی حکمران بنا سکتا ہے۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی