الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز كی حالت میں قبلہ رخ ہونا شرط ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ (البقرة: 144)
یقینا ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں، تو یقینا ہم تجھے اس قبلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے تو پسند کرتا ہے، سو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے اور تم جہاں بھی ہو سو اپنے چہرے اس کی طرف پھیر لو۔
جو شخص خانہ کعبہ کو دیکھ رہا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ بالکل کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرے اور وہ شخص جو کعبہ کو دیکھ نہیں رہا ، دور دراز کے علاقے میں ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ کعبہ کی جہت کی طرف منہ کرے ، یعنی جس جانب کعبہ ہے، اسی جانب نماز کی حالت میں اس کا منہ ہونا چاہیے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ (سنن ترمذي، أبواب الصلاة عن رسول صلى الله عليه وسلم: 342، سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: 1011) (صحیح)
مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے
مندرجہ بالا فرمان نبوی مدینہ میں رہنے والوں کے لیے ہے۔ ایسے ہی ہر اس علاقے میں رہنے والے افراد کے لیے بھی یہی حکم ہے، جہاں سے خانہ کعبہ شمال یا جنوب کی طرف ہو۔ اگر کسی علاقے میں خانہ کعبہ مشرق یا مغرب کی طرف ہو، تو اہل علاقہ کا قبلہ شمال اور جنوب کے درمیان ہوگا۔
اگر کسی مسجد میں قبلہ تھوڑا سا ٹیڑھا ہے، اور جہت قبلہ کی طرف ہی ہے، تو اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔
لیکن جب اہل مسجد کو عین قبلہ کا علم ہے تو صفیں عین قبلہ کے مطابق ہی بچھانی چاہییں۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی