الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی عورت سے معین وقت کے لیے کچھ مال کے عوض شادی کرنے کو متعہ کہتے ہیں ۔
متعہ شروع اسلام میں جائز تھا، لیکن بعد میں اسے ہمیشہ کے لیے حرام کردیا گیا ۔
سيدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ وَعَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ (صحيح البخاري، المغازي: 4216)
رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔
ربیع بن سبرہ جہنی فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَاءِ، وَإِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ ذَلِكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْءٌ فَلْيُخَلِّ سَبِيلَهُ، وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا (صحيح مسلم، النكاح: 1406)
لوگو! بےشک میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی، اور بلاشبہ اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے، اس لیے جس کسی کے پاس ان عورتوں میں سے کوئی (عورت موجود) ہو تو وہ اس کا راستہ چھوڑ دے، اور جو کچھ تم لوگوں نے انہیں دیا ہے اس میں سے کوئی چیز (واپس) مت لو۔
1. اسلام میں کسی عورت کے ساتھ جنسی تعلق کو صرف دو صورتوں میں جائز قرار دیا گیا ہے: وہ عورت انسان کی بیوی ہو یا لونڈی، متعہ کی صورت میں عورت نہ مرد کی بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (المؤمنون:5- 7)
اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔ پھر جواس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔
مندرجہ بالا دلائل کی بنا پر متعہ کی حرمت پر علماء امت کا اجماع ہے۔ (دیکھیں: المفہم از قرطبی، جلد نمبر 4، صفحہ نمبر 93)
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی