الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک دوسرے سے تحائف کا تبادلہ كرنا افضل عمل ہے، اس سے باہمی محبت بڑھتی ہے، حسد اور بغض ختم ہوتا ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَهَادُوا تَحَابُّو (الأدب المفرد: 594 (صحيح)
آپس میں تحائف دیا کرو (اس سے) تم آپس میں محبت کرنے لگو گے۔
بلکہ رسول اللہ نے رہنمائی کی ہے کہ کوئی شخص ادنی سا تحفہ بھی کسی کو دے تو وہ اسے نہ ٹھکرائے۔
سیدنا ابو ہریره رضی اللہ عنہ بيان كرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَوْ دُعِيتُ إِلَى كُرَاعٍ لَأَجَبْتُ وَلَوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ كُرَاعٌ لَقَبِلْتُ (صحيح البخاري، النكاح: 5178)
اگر مجھے پائے کی دعوت دی جائے تو میں اسے ضرور قبول کروں گا۔ اور اگر مجھے پائے کا ہدیہ دیا جائے تو میں ضرور قبول کروں گا۔
سوال میں مذکور پہلی صورت میں یعنی آپ نے انفرادی طور پر قران کی تفسیر پڑھنے کے لیے استاد رکھا ہوا ہے۔ آپ تفسیر قرآن کی تکمیل کے موقع پر اسے تنخواہ کے ساتھ ساتھ کوئی تحفہ دے ديں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ آپ کا مقصد اچھا ہے۔
اگر استاد کسی ادارے کا ملازم ہو اور آپ ادارے کو فیس ادا کر چکے ہوں، پھر تکمیل کے موقع پر استاد کو تحفہ دینا، اس بارے میں تفصیل درج ذیل ہے:
اگر آپ کی تعليم اس ادارے میں مکمل ہوچکی ہے، رزلٹ کا اعلان ہو چکا ہے اور آپ دوبارہ اس استاد سے نہیں پڑھیں گے، تو پھر تحفہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ آپ کا مقصد اچھا ہے۔
اگر آپ کی تعلیم اس ادارے میں جاری ہے اور آپ دوبارہ بھی اس استاد سے پڑھیں گے، اور آپ کے تحفہ دینے کا مقصد استاد کے قریب ہونا ہے، تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ اگر آپ کا مقصد اچھا بھی ہے، پھر بھی استاد کے ليے یہ تحفہ لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس سے طبعی طور پر استاد آپ کے قریب ہو جائے گا اور آپ سے امتیازی رویہ رکھے گا، جو جائز اور درست نہیں ہے۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَى عَمَلٍ فَرَزَقْنَاهُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ غُلُولٌ (سنن أبي داود، الخراج والإمارة: 2943)
جسے ہم کسی کام پر متعین کریں اور اسے اس پر تنخواہ بھی دیں، تو جو وہ اس سے مزید لے گا وہ خیانت ہو گی۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ