سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عدالت کے ذریعے نکاح کرنا

  • 2108
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-05
  • مشاہدات : 135

سوال

میں ایک جگہ شادی کا خواہشمند ہوں، لڑکی بھی ہر طرح سے راضی ہے۔ کئی بار رشتے کیلئے گھر والوں کو بھیج چکا ہوں۔ پہلے پہل لڑکی کے والد راضی تھے لیکن پھر کسی بات پر بدل گئے اور اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ ان کا بظاہر عذر یہ ہے کہ میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں اور میرے پاس ہے ہی کیا۔ میں سفید پوش آدمی ہوں، الحمدللہ اللہ پاک رزق دے رہے ہیں، محتاجی سے بچا رکھا ہے، لڑکی کہیں اور نکاح کیلئے راضی نہیں، والد جانتے ہیں لیکن میری طرف راضی نہیں، جبکہ کسی امیر گھر کے انتظار میں ہیں جو کہ ابھی تک نہیں ملا ، اس بات کو سات سال سے کچھ اوپر کا عرصہ ہو چلا ہے، تنگ آ کر اب ہم دونوں عدالتی نکاح کا سوچ رہے ہیں، میرے گھر والے راضی ہیں، لیکن خواہش رکھتے ہیں کہ شرعی طریقے سے نکاح ہو۔ آپ کا مشورہ و راہنمائی درکار ہے

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی حکم کے مطابق نکاح میں عورت کا ولی ہونا شرط ہے۔

سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا نِكَاحَ إلا بِوَليٍّ. (سنن أبي داود، النكاح:2085، سنن ترمذي، النكاح: 1101، سنن ابن ماجه، النكاح: 1881) (صحیح).

ولی کے بغیرنکاح نہیں ہوتا۔

دوسری حدیث میں سیدہ  عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أيُّما امرأةٍ نكَحَتْ بغيرِ إذن مَوَاليها فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ. (سنن أبي داود، النكاح: 2083، سنن ترمذي، النكاح: 1102) (صحيح).

جوعورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔

1۔ آپ کسی طریقے سے لڑکی کے والد کو راضی کریں، اگر لڑکی کے خاندان کے کسی آدمی یا کسی معتبر آدمی کے  ذریعہ سے معاملہ حل ہوسکتا ہے تو حل کرنے کی کوشش کریں۔

2۔ سوال میں مذکور صورت حال کے مطابق اگر لڑکا دین دار ہے تو لڑکی کے والدین کو چاہیے کہ وہ یہ رشتہ کر دیں، لیکن ولی کی اجازت کے بغیرعدالت کے ذریعے نکاح کرنا صریح احادیث کے خلاف ہے اورباطل ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ (سنن ترمذي، النكاح: 1084) (صحيح).

جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کاپیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے توزمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ

2- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ

تبصرے