سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

تارک نماز کا حکم

  • 2101
  • تاریخ اشاعت : 2024-07-23
  • مشاہدات : 63

سوال

ایک شخص نے دوسرے کو کہا کہ نماز پڑھ، دوسرے نے اس کے جواب میں کہا کہ نماز نہیں پڑھوںگا، اس کا کیا حکم ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز اسلام کا دوسرا اہم ترین رکن ہے۔ جس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ روزانہ پانچ مرتبہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے چھوڑنے پر سخت ترین وعیدیں سنائی گئی ہیں؛ لہذا انسان کواس بارے میں بالکل بھی سستی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

 جو شخص اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ نماز واجب ہے لیکن نماز پڑھتا نہیں ہے، ایسا آدمی یقینا فاسق وفاجر اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ہے اور بعض علماء نے ایسے شخص کو کافر بھی قرار دیا ہے، مالکی اور شافعی علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو نماز پڑھنے کا کہا جائے گا، اور ڈرایا جائے گا کہ اگر تو نے نماز نہ پڑھی تو ہم تجھے قتل کر دیں گے، تین دن تک اس کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا جائے گا، کہ ہر نماز کے وقت اسے نماز کا کہا جائے گا اور نہ پڑھنے پر قتل کی دھمکی دی جائے گی، اگر پھر بھی وہ نماز نہیں پڑھتا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ (المغنی: جلد نمبر 2،صفحہ نمبر: 329-330).

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:

إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاة. (صحیح مسلم، الإيمان: 82).

یقینا آدمی اور شرک، کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔

عبد اللہ بن شقیق رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ. (سنن ترمذي، الإيمان: 2622) (صحيح).

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نماز کے علاوہ کسی عمل کے نہ کرنے  پر کفر کا فتوی نہیں لگاتے تھے۔

بےنمازی کو قتل کرنے کی دلیل ارشاد باری تعالی ہے:

فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْﱠ. (التوبة:5).

پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں پکڑو اورانہیں گھیرو اوران کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھراگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں زکاۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔

مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالی نے مشرکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے اور ذکر کیا ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں تو پھر قتل سے بچ سکتے ہیں، اور توبہ اسلام قبول کرنے، نماز پڑھنےاور زکاۃ ادا کرنے کے ساتھ ہوگی، اگر وہ نماز نہیں پڑھتا تو اس نے صحیح طریقے سے توبہ نہیں کی اور قتل سے بچنے کی شرط کو پورا نہیں کیا لہذا اسے قتل کیا جائے گا۔

شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حوالے سے رقمطراز ہیں:

اگرکوئی شخص نماز كا اقرار اوراس كى فرضيت كا اعتقاد ركھتا ہے تو يہ ممكن ہى نہيں كہ وہ قتل ہونے تك ترك نماز پر اصرار كرے، اسلامی تاریخ ميں ایسا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، یعنی ایسا کبھی نہیں ہواکہ کسی شخص کو كہا جائےكہ اگر تم نے نماز ادا نہ كى تو تمہيں قتل كرديا جائيگا، اور وہ نماز كى فرضيت كا اعتقاد ركھتے ہوئے ترك نماز پر اصرار كرے، ايسا اسلامی تاریخ  ميں كبھى نہيں ہوا۔ جب کوئی شخص اس حد تک چلا جائے کہ اسے قتل کر دیا جانا منظور ہو لیکن نماز پڑھنا منظور نہیں، تو وہ حقیقت میں باطنی طور پر نماز کی فرضیت کو مانتا ہی نہیں ہے اوراس کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اوراس حوالہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے متعدد آثار موجود ہیں۔ (بتصرف یسیر)

(مجموع الفتاوى از ابن تيميہ، جلد نمبر: 22 ،  صفحہ نمبر: 47 - 49 )

1. آپ ایسے شخص کو اسلام میں نماز کی اہمیت كے بارے میں آگاہ کریں اور اسے اپنے ساتھ مسجد لے کر جائیں، اگر وہ شخص آپ کی وجہ سے راہ راست پر آجاتا ہے تو یہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے:

سیدناابومسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ (صحيح مسلم، الإمارة: 1893)

جس شخص نے کسی نیکی کا پتہ بتایا، اس کے لیے (بھی) نیکی کرنے والے کے جیسا اجر ہے۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

تبصرے