الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسان کو چاہیے کہ وہ شادی کرنے سے پہلے نکاح و طلاق کے مسائل سے بخوبی آگاہی حاصل کرے، تا کہ اسے نکاح و طلاق کی شروط ، آداب، خاوند اوربیوی کے حقوق و فرائض، طلاق دینے کا شرعی طریقہ اوراس سے متعلقہ تمام احکامات کا علم ہو سکے اور وہ اپنی ازدواجی زندگی شرعی احکامات کے مطابق گزار سکے۔
لیکن اگر کوئی انسان اکٹھی تین طلاقیں دے دے تو وہ ایک ہی شمار ہوگی، لہذا اگر آپ کے خاوند نے آپ کو موبائل پر پیغام بھیج کر اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی اورخاوند کو عدت کے دوران آپ سے رجوع کا حق حاصل ہے؛ کیوں کہ نکاح کے مضبوط بندھن کو شریعت نے یک لخت ختم نہیں کیا بلکہ تین طلاق کا سلسلہ اور پھر ان میں سے پہلی دو کے بعد سوچنے اور رجوع کرنے کا موقع دیا ہے تاکہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔
عدت گزرنے کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوسکتا ہے، جس میں ولی ، گواہ، حق مہر، عورت کی رضامندی ضروری ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَة. (صحيح مسلم، الطلاق: 1472).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سال تک (اکٹھی) تین طلاقیں ایک طلاق ہی شمار ہوتی تھیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق کےناجائز طریقے کی روک تھام کے لیے ایک سیاسی فیصلہ کیا تھا کہ جس نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں ہم اسے نافذ کر دیں گے، یہ وقتی سیاسی فیصلہ تھا، شرعی نہیں تھا۔ (حاشية الطحاوي على الدر المختار: 2/105).
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ عبد الخالق صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب حفظہ اللہ