سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مولوی کی داڑھی کتنی ہونی چاہیے

  • 2090
  • تاریخ اشاعت : 2024-06-26
  • مشاہدات : 107

سوال

امام مولوی کی داڑھی کتنی ہونی چاہیے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صرف امام اور مولوی کے لیے نہیں بلکہ ہر مسلمان پر داڑھی رکھنا فرض ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی داڑھی پوری رکھی ہوئی تھی اورآپ نے بہت سی احادیث میں داڑھی بڑھانے کا حکم بھی دیا ہے۔

داڑھی کو بڑھانے کے  حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل احادیث آتی ہیں:

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى (صحیح البخاري، اللباس: 5893، صحيح مسلم، الطهارة: 259)

مونچھیں پست کراؤ اور داڑھی خوب بڑھاؤ۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ (صحیح البخاري، اللباس: 5892)

تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھی بڑھاؤ اورمونچھیں کتراؤ۔

 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى (صحيح مسلم، الطهارة: 259).

تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے مونچھیں کتراؤ اور داڑھی  مکمل چھوڑ دو۔

دیگر بہت سی احادیث اسی معنی میں آتی ہیں جس میں داڑھی کو مکمل طور چھوڑ دینے اور معاف کر دینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے ایک مسلمان پر داڑھی کو مکمل رکھنا واجب ہے، اور کسی بھی طرح سے کتراانا جائز نہیں ہے۔

امامت کا حق دارکون ہے؟

سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا وفي رواية فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا. (صحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة: 673).

لوگوں کو امامت وہ کروائے گا جو ان میں سے زیادہ قرآن کا حافظ ہوگا، اگر تمام لوگ قرآن مجید کے حفظ میں برابر ہوں، تو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو (اس کو امامت کی ذمے داری جائے گی)، اگر وہ سنت رسول کے علم میں برابر ہوں، تو جس نے پہلے ہجرت کی ہو (اس کو امامت کی ذمے داری جائے گی)، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں، تو جس نے پہلے اسلام قبول کیا ہو (اس کو امامت کی ذمے داری جائے گی)، اور ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں: کہ جو عمر میں بڑا ہو۔

سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کر کے واپس آئے تو کہنے لگے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

صَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَصَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا». فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي، لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ، وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ. (صحيح البخاري، المغازي: 4302).

تم فلاں نماز اس وقت اور فلاں نماز اس وقت ادا کرو، جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہےاور جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو وہ امامت کروائے، (عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں)  میری قوم والوں نے سوچ بچار کیا، ان میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ قرآن کا حافظ نہیں تھا، کیوں کہ میں جو قافلے گزرتے تھےان سے قرآن سیکھا کرتا تھا، میری قوم نے مجھے نماز کے لیے امام بنا دیا اور میری اس وقت عمر چھ یا سات سال تھی۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ. (سنن ترمذي، المناقب: 3790) (صحيح).

میری امت میں سب سے زیادہ خوبصورت، ترتیل کے ساتھ پڑھنے والا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ  ہے۔

ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے امامت کرواتے ہوئے قبلہ کی طرف تھوکا ہے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اسے امامت سے روک کر دیا او رفرمایا:

إنَّك آذَيتَ اللهَ ورسولَه. (سنن أبي داود، الصلاة: 481) (صحيح).

تو نے اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو  تکلیف پہنچائی ہے۔

مذکورہ بالا احادیث سے ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ جو شخص قرآن کا زیادہ حافظ ہو، اس کی آواز خوبصورت ہو، قواعد تجوید سے آگاہ ہو، سنت رسول اور خاص طور پر نماز کے مسائل کو تفصیل کے ساتھ جانتا ہو، متقی، پرہیزگار ہو، وہ امامت کا زیادہ حق دار ہے۔

1. اس لیے مسجد میں مستقل امام اس شخص کو رکھنا چاہیے جس نے پوری داڑھی رکھی ہو۔

والله أعلم بالصواب. 

محدث فتوی کمیٹی

تبصرے