الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن سے ہی بچوں کی اسلامی تربیت کرنے کا حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ (سنن أبي داود، الصلاة: 495) (صحیح)
اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں (اور نہ پڑھیں) تو انہیں اس پر مارو اور ان کے بسر جدا جدا کر دو۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنا سکھاتے تھے۔
ربیع رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہم عاشوراء کا روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی رکھواتیں نیزانھیں بہلانے کے لیے ہم روئی کے کھلونے بنا دیتیں۔ جب کوئی ان میں سے کھانے کے لیے روتا تو ہم اسے وہ کھلونا دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا۔ (صحیح البخاري، الصوم: 1960)
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے بزرگ ہمیں لڑکپن میں گواہی اورعہدو پیمان پر مارا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري،: 2652)
1. اس لیے چھوٹی بچیوں کو تنگ، نیم عریاں یا مختصر لباس نہ پہنایا جائے، بلکہ اسے بچپن سے ہی پردہ اورعفت و عصمت کی عادت ڈالی جائے، تاکہ بڑے ہو کر اسے پردہ کرنے کی عادت پڑے، کیونکہ بچی کو نو سال کی عمر تک اللہ تعالی کے وہ تمام احکامات سکھانا لازمی ہیں جن کی پابندی کرنا بلوغت کے بعد اس پر لازمی ہے۔
2. باپ کا نوسالہ نابالغ بیٹی کو گود میں بٹھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ شہوت اور فتنے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ آج کل بچے جلدی بالغ ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کے بقول بیٹی بالغ نہیں بھی ہوئی، تب بھی وہ بلوغت کے قریب ہے، اس عمر میں جنس مخالف کی طرف میلان شروع ہو جاتا ہے۔
3. باپ سرعت انزال کا مریض ہے، بیٹی کے کپڑے بھی باریک ہیں، اس صورت میں اس کا اپنی نو سالہ بیٹی کو گود میں بٹھانا بالکل ناجائز اور حرام تھا۔ باپ کا شہوت اورانزال کے بعد اپنی بیٹی کو دبوچ لینا بھی بہت بڑا جرم ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالی سے اپنے اس عظیم جرم پر معافی مانگنا لازمی ہے، اپنے کیے ہوئے پر نادم ہو، اور آئندہ اپنی بیٹی کو گود میں نہ بٹھائے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَه. (سنن ابن ماجه، الزهد: 4250) (صحيح).
گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہو جاتا ہے جیسا اس کا کوئی گناہ تھا ہی نہیں۔
اس شخص کی بیوی اس پر حرام نہیں ہو گی، کیونکہ حرمت شرعی نکاح سے ثابت ہوتی ہے۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی
1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ
2- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب حفظہ اللہ
3- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ