الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ تعالی نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے، لہذا اگر کسی کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مخالف ہو گی تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے کسی کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الحشر: 7)
اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
اور فرمايا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا (الأحزاب: 36)
اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقینا وہ گمراہ ہو گیا، واضح گمراہ ہونا۔
اور فرمايا:
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (الأعراف: 3)
اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔
اور فرمايا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور: 63)
سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آ پہنچے، یا انہیں دردناک عذاب آ پہنچے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے خود اپنی حدیث کی کتاب الموطا میں اپنی سند کے ساتھ حدیث بیان کی ہے جس میں ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر باندھنے کا حکم دیا کرتے تھے، امام مالک امام ابو حازم بن دینار سے بیان کرتے ہیں وہ صحابی رسول سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ (الموطأ، السهو: 546)
لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھے۔
امام مالک رحمہ اللہ اپنے اقوال و افعال کے حوالے سے فرماتے ہیں:
إنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُخْطِئُ وَأُصِيبُ فَانْظُرُوا فِي رَأْيِي فَكُلُّ مَا وَافَقَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ فَخُذُوا بِهِ، وَمَا لَمْ يُوَافِقْ السُّنَّةَ مِنْ ذَلِكَ فَاتْرُكُوهُ (ديکھیں: مواهب الجليل جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 40)
میں انسان ہوں میری بات غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح بھی، تمھیں میری جو بات قرآن وسنت کے مطابق لگے اسے لے لو اور جو قرآن وسنت کے مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔
سابقہ کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر امام مالک رحمہ اللہ سے ثابت بھی ہو جائے کہ وہ نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے پھر بھی نماز میں ہاتھ باندھے جائیں گے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اس حوالے سے بالکل واضح ہے ۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتوى کمیٹی
01- فضیلۃالشیخ جاويد اقبال سيالكوٹی حفظہ اللہ
02- فضیلۃالشیخ عبد الخالق حفظہ اللہ