الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ جو بات صحیح اورکتاب و سنت سے ثابت ہو، عموماً اس کی پرواہ نہیں کی جاتی، جبکہ اس کے برخلاف خاندانی رسوم و رواج اور خود ساختہ مسائل کو کہیں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اوران کی خلاف ورزی کوانتہائی معیوب گردانا جاتا ہے۔
اسی قسم کے خود ساختہ مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کی میّت کو، یا شوہر اپنی بیوی کی میّت کونہ ہاتھ لگا سکتا ہے، نہ دیکھ سکتا ہے، نہ غسل دے سکتا ہے اور نہ اسے قبر میں اتار سکتا ہے۔
اس کی بنیاد یہ گھڑی گئی ہے کہ موت سے شوہر اور بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے لیے غیر محرم ہوجاتے ہیں۔
حالانکہ متعدد احادیث و آثار سے ثابت ہےکہ زوجین میں سے ایک کی وفات کے بعد، ان میں سے زندہ شخص میّت کو ہاتھ لگانا اور دیکھنا تو درکنار، غسل تک دے سکتا ہے۔
سيده عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَقِيعِ، فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِي رَأْسِي، وَأَنَا أَقُولُ: وَا رَأْسَاهُ، فَقَالَ: «بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ» ثُمَّ قَالَ: «مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي، فَقُمْتُ عَلَيْكِ، فَغَسَّلْتُكِ، وَكَفَّنْتُكِ، وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ، وَدَفَنْتُكِ (سنن ابن ماجه، الجنائز: 1465) (صحیح)
رسول اللہ ﷺ بقیع سے آئے تو دیکھا کہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے اور میں کہہ رہی ہوں: ہائے میرا سر! نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بلکہ عائشہ! میں(کہتا ہوں): ہائے میرا سر!‘‘ پھر فرمایا: ’’تمہارا کیا نقصان ہے اگر تمہاری وفات مجھ سے پہلے ہوگئی؟ (اس صورت میں) میں خود تمہارے لیے ( کفن دفن کا) اہتمام کروں گا، تمہیں خود غسل دوں گا، خود کفن پہناؤں گا، خود تمہارا جنازہ پڑھوں گا اور خود دفن کروں گا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں:
لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا غَسَلَهُ إِلَّا نِسَاؤُهُ (سنن ابي داود، الجنائز: 3141) (صحیح)
اگر مجھے اس معاملے کا پہلے علم ہو جاتا جس کا بعد میں ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بيوياں ہی غسل دیتیں۔
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی تھی کہ انہیں ان کے شوہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ غسل دیں۔ (السنن الکبری للبیہقی: 6740)
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی