سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

’’ باپ کے گھر چلی جاؤ میرے پاس کیوں رہتی ہو‘‘، ’’اتنی نیک بنتی ہو تو میرے پاس کیا کر رہی ہو‘‘ ، کیا ان جملوں سے طلاق ہو جائے گی؟

  • 1998
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-28
  • مشاہدات : 175

سوال

اگر شوہر صرف طلاق کے الفاظ کو ہی طلاق سمجھتے ہوں اور کنایہ کے الفاظ سے واقف نہ ہوں، جبکہ وہ کنایہ کے الفاظ اکثر استعمال کرتے ہوں ، مثلاً وہ لڑتے ہوئے یہ کہیں کہ میرے پاس سے کچھ اور نہ لے لو، باپ کے گھر چلی جاؤ میرے پاس کیوں رہتی ہو، اتنی نیک بنتی ہو تو میرے پاس کیا کر رہی ہو، میرے منہ سے کچھ اور نہ لے لینا، کیا یہ الفاظ کنایہ میں آتے ہیں؟ یہ سب وہ پنجابی زبان میں کہتے ہیں۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جن لفظوں کے ساتھ بیوی کو طلاق دی جاسکتی ہے وہ دو طرح کے ہیں:

1.  صریح لفظ: جو طلاق کے معنی میں بالکل واضح ہو جس کا طلاق کے علاوہ کوئی اورمطلب نہیں ہوسکتا۔

2.  کنایہ: اس سے مراد ایسا لفظ ہے جو طلاق دینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور طلاق کے علاوہ کسی اور معنی کو ادا  کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

انسان بیوی کو طلاق دینے کے لیے بعض اوقات بالکل واضح لفظ استعمال کرتا ہے اور بعض اوقات ایسا لفظ استعمال کرتا ہے جو طلاق کا معنی بھی دیتا ہے اور اس لفظ کا مطلب طلاق کے علاوہ کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔

سوال میں مذکور ہے کہ آپ کے شوہر نے مختلف اوقات میں درج ذیل جملے کہے ہیں:

’’میرے پاس سے کچھ اور نہ لے لو‘‘، ’’ میرے منہ سے کچھ اور نہ لے لینا‘‘: ان دونوں جملوں  سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاوند نے صرف دھمکی دی ہے طلاق نہیں دی۔

’’ باپ کے گھر چلی جاؤ میرے پاس کیوں رہتی ہو‘‘،  ’’اتنی نیک بنتی ہو تو میرے پاس کیا کر رہی ہو‘‘: یہ دونوں  جملے طلاق کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں ، اگر خاوند کا ان جملوں کو بول کر طلاق دینے کا ارادہ تھا تو طلاق ہو جائے گی۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

1- فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

2- فضیلۃ الشیخ اسحاق زاہد صاحب

3- فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال صاحب حفظہ اللہ

تبصرے