سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اسلام علیکم میرا سوال یہ ہے اگر ایسے کوی بولے اگر اس لڑکی کی سوا جس سے بھی میرا نکاح ھوجایی اس پر طلاق ھوں طلاق ھوں تین دفع طلاق ھوں بار بار طلاق ھوں اس لڑکی کی سوا کسی سے نکاح نھی کروگا پھر سے کھا جتنی لڑکیوں سے میرا نکاح ھوجایی اس پر طلاق ھوں تین - تی

  • 1704
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 291

سوال

اسلام علیکم میرا سوال یہ ہے اگر ایسے کوی بولے اگر اس لڑکی کی سوا جس سے بھی میرا نکاح ھوجایی اس پر طلاق ھوں طلاق ھوں تین دفع طلاق ھوں بار بار طلاق ھوں اس لڑکی کی سوا کسی سے نکاح نھی کروگا پھر سے کھا جتنی لڑکیوں سے میرا نکاح ھوجایی اس پر طلاق ھوں تین - تی
ایک مجلس کی تین طلاقیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! ایک آدمی نے ا پنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ہیں کیا وہ مطلقہ بیوی سے رجوع یا نکاح کر سکتا ہے؟ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!! عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : «کَانَ الطَّلاَقُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِﷺوَاَبِیْ بَکرٍْ وَّسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَةٌ فَقَالَ عُمَرَ بْنُ الْخَطَّابِ اِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوْا فِیْ اَمْرٍ کَانَتْ لَهُمْ فِيْهِ اَنَاةٌ فَلَوْ اَمْضَيْنَاه فَاَمْضَاه عَلَيْهِمْ»صحيح مسلم جلد اول صفحه 477 ’’رسول اللہﷺابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب کے ابتدائی دو سالوں میں اکٹھی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں پھر سیدنا عمر نے فرمایا جس کام میں لوگوں کے لیے سوچ وبچار کی مہلت دی گئی تھی اس میں انہوں نے جلدی کی اگر ہم ان پر تینوں لازم کر دیں تو انہوں نے اس فیصلے کو ان پر لازم کر دیا‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا صورت مسئولہ میں دی ہوئی تین طلاقیں ایک طلاق ہے تو اگر یہ تیسری طلاق نہیں تو عدت کے اندر رجوع بلا نکاح اور عدت کے بعد نیا نکاح مطلقہ بیوی کے ساتھ درست ہے قرآن مجید میں ہے : ﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾ –بقرة232 ’’اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں عدت اپنی کو پس مت منع کرو ان کو یہ کہ نکاح کریں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہوں آپس میں ساتھ اچھی طرح کے‘‘ ھذا ما عندی و اللہ اعلم بالصواب فتویٰ کمیٹی محدث فتویٰ

تبصرے