سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

قضاٗ عمری قران و حدیث کی روشنی میں

  • 1267
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 385

سوال

قضاٗ عمری قران و حدیث کی روشنی میں
قضاء عمری کی حقیقت السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کیا نمازوں کی قضاکی جاسکتی ہے۔ اور قضاعمری کی کیا حقیقت ہے۔ اگر قران و سنت سے ثابت ہے تو اس کا طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں بتائیں ۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! کسی شرعی عذر (سفر اور بیماری وغیرہ)کی بنیاد پر نماز کو قضا کیا جا سکتا ہے،لیکن اس میں کوشش ہونی چاہئے کہ جلد از جلد نماز ادا کر لی جائے۔ قضاء عمری کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے ،اگر کسی کی زیادہ نمازیں رہتی ہیں تو اس پر اللہ سے توبہ کرنا فرض اور واجب ہو جاتا ہے۔ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ اور جرم عظیم ہے ، بعض اہل علم تو ایسے شخص کی تکفیر کا فتوی دیتے ہیں۔ ایسے شخص پر توبہ کرنا لازم ہے کہ وہ اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کی اللہ سے اخلاص کے ساتھ پکی اور سچی توبہ کرے۔ اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے۔ امام ابن تیمیہ کے نزدیک جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضا مشروع نہیں ہے ، بلکہ اس پر توبہ فرض ہے۔ شیخ صالح العثمین نے بھی اسی موقف کو ترجیح دی ہے۔ اگر آپ مخلصانہ سچی توبہ کرکے آئندہ نمازیں پڑھنا شروع کر دیتےہیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ سابقہ گناہ کو معاف فرما دے گا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں فتوی نمبر(4108) http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/4108/0/ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتوی کمیٹی محدث فتویٰ

تبصرے