الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی بھی شرعی معاملہ میں صحابہ کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ ہر حکم جو رسول اللہ ﷺ نے کرکے دکھایا یا حکم دیا اسے بجا لاتے او روہ ضروری اور غیر ضروری کی بحث میں نہیں پڑتے تھے۔ نماز سے متعلقہ احکام میں بھی ان کا یہی طرز عمل تھا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: صلوا کما رایتمونی أصلی (صحیح بخاری:6705) ’’جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو اسی طرح نماز ادا کرو۔‘‘ اب اس میں یہ بحث اٹھانا کہ مثلاً رفع الیدین یا اس طرح کے دوسرے امور کرنا سنت ہیں یا فرض یا واجب تو صحابہ کرام کا یہ وطیرہ نہیں تھا وہ اللہ کے نبی ﷺ کی ایک ایک سنت پر اس بحث سے ہٹ کر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ سیدنا حذیفہؓ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا جو رکوع و سجود پورے نہیں کررہا تھا ، فرمایا: لو مت مت علی غیر سنۃ محمد’’اگر تو اسی حالت میں مرگیا تو نبیﷺ کے طریقے پرنہیں مرے گا۔‘‘ (صحیح بخاری:389) رفع الیدین نبیﷺ سے صحیح سند سے ثابت ہے نماز کا حصہ ہے اور اس کے بغیرنماز پڑھنے کو اب ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز جیسی نہیں باقی رہی بات اس کی قبولیت کی تو یہ اس نمازی او راللہ کے مابین معاملہ ہے کہ وہ قبول کرے یا نہ کرے۔ ہم اللہ کے رسولﷺ کی بات او رحکم کے ماننے کے پابند ہیں۔اس کی جزئیات کے نقص سے کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ اللہ کوبہتر پتہ ہے ۔ لہٰذا بہتر طریقہ یہی ہے کہ صحابہ کرام کی طرح عبادات اور فعل رسولﷺ میں کسی تخصیص کے بغیر عمل پیرا ہوا جائے۔ وبالله التوفيق
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ