سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(507) حیوان کے ساتھ نرمی

  • 9985
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3142

سوال

(507) حیوان کے ساتھ نرمی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ڈاکٹر۔ت۔ج۔ عبدالہادی اسکینر نے آسٹریلیا سے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جانور بھیجنے کے بارے میں خط لکھ کر ان بدترین حالات کے بارے میں فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز سے سوال پوچھا ہے جن کا ان جانوروں کو سامنا کرنا پڑتا ہے؟ چنانچہ اس سوال کا فضیلۃ الشیخ نے حسب ذیل جواب دیا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے جناب برادر مکرم ڈاکٹر۔ ت۔جج۔ عبدالہادی اسکینر کے نام:

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

امابعد:

میں نے آپ کا وہ خط ملاحظہ کیا ہے جس میں آپ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا ہے کہ آپ کے ملک آسٹریلیا سے مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں جانوروں کی منتقلی کے وقت انہیں جن بدترین حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور رش وغیرہ کی وجہ سے بحری جہازوں میں انہیں جن بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اس موضوع پر قلم اٹھائیں۔سب سے پہلے تو ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کو اور تمام مسلمان بھائیوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ نے ایک انتہائی اہم مسئلہ کی طرف جو توجہ مبذول فرمائی ہے‘ اس پر آپ کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔ ہمیں خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہم آپ کے اس سوال کا کتاب کریم و سنت مطہرہ کے ان نصوص کی روشنی میں جواب دیں‘ جن میں جانوروں کے ساتھ‘ خواہ وہ ماکول اللحم (جن کا گوشت کھایا جاتا ہے) ہوں یا غیر ماکول اللحم‘ حسن سلوک کی ترغیب دی گئی ہے‘ نیز اس موقع پر ہم کچھ ایسی صحیح احادیث کو بھی بیان کریں گے جن میں جانوروں کو تکلیف دینے والوں کیلئے وعید بیان کی گئی ہے‘ خواہ یہ تکلیف انہیں بھوکا رکھنے کے نتیجہ میں ہو یا نقل و حمل میں پرواہ نہ کرنے کی صورت میں یا کسی بھی اور وجہ سے چنانچہ حیوان وغیر حیوان سب کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَحسِنوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُحسِنينَ ﴿١٩٥﴾... سورة البقرة

’’اور احسان کرو‘ بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔

نیز فرمایا:

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ‌ بِالعَدلِ وَالإِحسـٰنِ...﴿٩٠﴾... سورة النحل

’’اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔

اس حدیث میں ہے جسے امام مسلمؒ اور اصحاب سنن نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ»(صحيح مسلم)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے بارے میں احسان کو فرض قرار دیا ہے لہٰذا جب تم (کسی چیز کو) قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کروا ور جب (کسی جانور کو) ذبح کرو تو اچھے طریقہ سے ذبح کرو‘ چھری کو تیز کر لو اور ذبیحہ کو آرام پہنچائو‘‘۔

صحیح حدیث میں ہے کہ جو کسی غم زدہ کی مدد کرتا ہے توا سے عظیم اجرو ثواب ملتا ہے‘ اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور اس کے اس عمل کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ، اشْتَدَّ عَلَيْهِ العَطَشُ، فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا، فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ العَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الكَلْبَ مِنَ العَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ بِي، فَنَزَلَ البِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيهِ، فَسَقَى الكَلْبَ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ   وَإِنَّ لَنَا فِي البَهَائِمِ أَجْرًا؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ »  ( صحيح البخاري)

’’ایک آدمی راستہ پر چل رہا تھا کہ اسے پیاس نے ستایا تو اس نے ایک کنواں دیکھا اور اس میں اتر کر پانی پی لیا اور جب وہ کنویں سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک کتاہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے کیونکہ اسے شدید پیاس لگی ہوئی تھی‘ اس آدمی نے سوچا کہ اس کتے کو بھی اس طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے پیاس لگی تھی‘ لہٰذا وہ پھر کنویں میں اترا اور اس نے اپنے موزے کو پانی سے بھر لیا‘ اسے اپنے منہس ے تھام لیا اور اس طرح باہر آ کر کتے کو پانی پلا دیا‘ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی نیکی کا صلہ دیا اور اسے بخش دیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا جانوروں کی وجہس ے بھی ہمیں اجرو ثواب ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہر زندہ چیز کی وجہ سے اجرو ثواب ہے‘‘۔

حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«بَيْنَمَا كَلْبٌ يُطِيفُ بِرَكِيَّةٍ، كَادَ يَقْتُلُهُ العَطَشُ، إِذْ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَنَزَعَتْ مُوقَهَا فَسَقَتْهُ فَغُفِرَ لَهَا بِهِ »  ( صحيح البخاري)

’’ایک کتا کنویں کی منڈیر کے گرد چکر لگا رہا تھا اور قریب تھا کہ پیاس کی شدت سے مر جائے کہ اسے بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے دیکھ لیا‘ اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس سے کنویں سے پانی نکال کر اسے پلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے اس عمل کی وجہ سے معاف فرما دیا‘‘۔

اسلام نے احسان کی ترغیب دی ہے‘ مستحق کیلئے اسے واجب قرار دیا ہے اور اس کے برعکس ظلم و زیادتی سے منع فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہے:

﴿وَلا تَعتَدوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ﴿٨٧﴾... سورة المائدة

’’اور زیادتی نہ کرنا کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔

اور فرمایا:

﴿وَمَن يَظلِم مِنكُم نُذِقهُ عَذابًا كَبيرً‌ا ﴿١٩﴾... سورة الفرقان

’’اور جو شخص تم میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے‘‘۔

صحیح مسلم میں ہے:

« مَرَّ ابْنُ عُمَرَ بِنَفَرٍ قَدْ نَصَبُوا دَجَاجَةً يَتَرَامَوْنَهَا، فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ تَفَرَّقُوا عَنْهَا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: «مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ مَنْ فَعَلَ هَذَا » ( صحيح مسلم)

حضرت ابن عمرؓ کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو ایک مرغی کو باندھ کر اپنے نشانہ کی مشق کر رہے تھے۔ انہوں نے جب حضرت ابن عمرؓ کو دیکھا تو منتشر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا:یہ کس نے کیا ہے؟ رسول اللہﷺ نے ایسا کام کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے:

«نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم أن تصبر البهائم أي أن تحبس»( صحيح بخاري)

’’رسول اللہﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ جانوروں کو باندھ کر رکھاجائے (کہ وہ مر جائیں)‘‘۔

ایک اور روایت میں ہے:

« لاتتخذوا شيئا فيه الروح غرضا»( صحيح مسلم)

’’کسی بھی ذی روح چیز کو نشانہ کیلئے مشق نہ بنائو‘‘۔

ابن عباسؓ سے روایت ہے:

«إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ قَتْلِ أَرْبَعٍ مِنَ الدَّوَابِّ: النَّمْلَةُ، وَالنَّحْلَةُ، وَالْهُدْهُدُ، وَالصُّرَدُ  » ( سنن أبي داؤد)

نبی اکرمﷺ نے چار جانوروں (۱) شہد کی مکھی (۲) چیونٹی (۳) ہدہد اور (۴) لٹورا (ایک پرندے کا نام) کے قتل کرنے (مار ڈالنے) سے منع فرمایا ہے‘‘۔

صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ»(صحيح مسلم)

’’ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا جسے اس نی قید کر دیا تھا حتیٰ کہ وہ بلی مر گئی‘ لہٰذا فوت ہونے کے بعد وہ عورت جہنم رسید ہو گئی کیونکہ قید میں اس نے اسے نہ تو کھلایا‘ پلایا اور نہ ہی اسے کھلا چھوڑا کہ وہ خود زمین سے کیڑے مکوڑے کھا لیتی‘‘۔

سنن ابی دواود میں ابو واقدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«ما قطع من البهيمة وهي حية فهو ميتة» ( سنن أبي داؤد)

’’زندہ جانور کے جسم سے جو حصہ کاٹا جائے‘ وہ مردار ہے‘‘۔

اور ترمذی کی روایت میں الفاظ یہ ہیں:

«ما قطع من حي فهو ميت » ( الحاكم في المستدرك)

’’زندہ سے جو کاٹا جائے‘ وہ مردہ ہے‘‘۔

حضرت ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے‘ آپ قضائے حاجت کیلئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے۔ ہم نے اس کے دونوں بچوں کو پکڑ لیا تو چڑیا نے آ کر پھڑپھڑانا شروع کر دیا‘ اتنے میں نبی اکرمﷺ بھی تشریف لے آئے تو آپ نے فرمایا:

«من فجع هذي بولدها ردوا ولدها إليها» ( سنن أبي داؤد)

’’اس کے بچوں کی وجہ سے اسے کس نے تکلیف دی ہے‘ اس کے بچے اسے واپس لوٹا دو‘‘۔

آپﷺ نے یہ بھی ملاحظہ فرمایا کہ ہم نے چیونٹیوں کی ایک بل کو جلا دیا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے کس نے جلایا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’ہم نے‘‘ آپ نے فرمایا:

«لا ينبغي أن يعذب بالنار إلا رب النار » ( سنن أبي داؤد)

’’آگ کے رب کے سوا کسی اور کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ آگ کا عذاب دے‘‘۔

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

«مَا مِنْ إِنْسَانٍ قَتَلَ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَهَا بِغَيْرِ حَقِّهَا، إِلَّا سَأَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهَا»، قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا حَقُّهَا؟ قَالَ: «يَذْبَحُهَا فَيَأْكُلُهَا، وَلَا يَقْطَعُ رَأْسَهَا يَرْمِي بِهَا» ( سنن النسائي)

’’جو انسان بھی کسی چڑیا یا اس سے بڑھ کر بھی کسی چھوٹی چیز کو ناحق قتل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں اس سے سوال کرے گا‘‘ عرض کیا گیا: ’’یارسول اللہ! اس کا حق کیا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’یہ کہ اسے ذبح کر کے کھا لے اور اس طرح نہ کرے کہ اس کے سر کو کاٹ دے اور اسے پھینک دے‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عادت کو ترک کر دینا چاہئے او ران جانوروں وغیرہ کے ساتھ رحمت کا عین یہی تقاضا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کا ایک گدھے کے پاس سے گزر ہوا جس کے منہ پر آگ سے نشان لگایا گیا تھا تو آپ نے فرمایا:

«لعن الله اللذي وسمه» ( صحيح مسلم)

’’اللہ تعالیٰ اس نشان لگانے والے پر لعنت فرمائے‘‘۔

ایک دوسری روایت میں ہے:

«نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن الضرب في الوجه وعن الوسم في الوجه» ( صحيح مسلم)

’’رسول اللہﷺ نے منہ پر مارنے اور نشان لگانے سے منع فرمایا ہے‘‘۔

اور یہ حکم انسان اور حیوان سب کیلئے ہے۔ یہ اور ان کے ہم معنی دیگر نصوص اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ ہر قسم کے جانور کو عذاب دینا حرام ہے حتیٰ کہ ان جانوروں کو بھی جنہیں قتل کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ مثلاً پانچ فاسق جانور (۱) کو (۲) بچھو (۳) چوہا (۴) چیل اور (۵) بائولا کتا۔ اور بخاری کی ایک روایت میں سانپ کا ذکر بھی ہے۔

ان تمام نصوص کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام نے حیوانات کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول کی ہے خواہ اس کا تعلق انہیں نفع پہنچانے سے ہو یا ان سے تکلیف کو دور کرنے سے لہٰذا اسلام کی یہ تعلیمات ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئیں خصوصاً ان جانوروں کے حوالہ سے جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ حیوانات بھی اپنے اپنے دائرہ میں اس اعتبار سے قابل احترام ہیں کہ ہم انہیں کھاتے ہیں یا یہ بھی ہمارا مال ہیں اور پھر ایک طرف تو اطاعت و قربت کے حوالہ سے ان سے بہت سے شرعی احکام متعلق ہیں اور دوسری طرف انہیں بہت سی مشکلات کا جو سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس حوالہ سے بہت سے احکام ان سے متعلق ہیں خصوصاً جبکہ ان کے دوردراز علاقوں کی طرف نقل و حمل کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے اور بے پناہ رش‘ بھوک‘ پیاس یا بیماری کے پھیلنے سے ان کے مرنے کا خدشہ ہوتا ہے تو ان حالات میں متعلقہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس طرف جلد توجہ کریں اور نقل و حمل کے وقت ان کے آرام‘ کھانے پینے اور علاج معالجے کی طرف خصوصی توجہ مبذول کریں۔ کمزور جانوروں کو طاقتوروں سے اور بیماروں کو تندرستوں سے مقدور بھر کوشش کر کے تمام مراحل میں الگ رکھیں اور پھر یہ ساری باتیں سرمایہ کاری کرنے والے اداروں‘ افراد اور درامد برآمد کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کیلئے ممکن بھی ہیں۔

جو بات بے حد قابل افسوس بلکہ قابل مذمت ہے اور شریعت نے بھی اس سے منع کیا ہے‘ وہ جانوروں کے ذبح کرنے کا وہ طریقہ ہے جو آج کل اکثر غیر اسلامی ملکوں میں مروج ہے اور جس میں جانوروں کو مختلف قسم کے عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے مثلاً یہ کہ جانوروں کے مرکز دماغ پر بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے ہیں تاکہ اسے بے ہوش کر دیا جائے او رپھر اسے ایسی مشینوں سے گزارا جاتا ہے جو اس کے بالوں اور کھالوں کو نوچ لیتی ہیں یا ابھی وہ زندہ ہی ہوتا ہے کہ اسے الٹا لٹکا کر بجلی کا جھٹکا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح زندہ مرغیوں اور پرندوں کے بالوں کو نوچ لیا جاتا ہے یا انہیں سخت گرم پانی میں ڈبو دیا جاتا ہے یا بال اڑانے کیلئے ان پر سخت گرم بھاپ کر ڈالا جاتا ہے کیونکہ ان کا گمان یہ ہے کہ اس طرح جانوروں کو ذبح کرنے سے زیادہ گوشت حاصل ہوتا ہے حالانکہ ان تمام صورتوں میں جانوروں کے عذاب کا پہلو ہے جو کہ ان نصوص شریعت کے مخالف ہے جن میں اسلامی شریعت بیضاء نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے لہٰذا ہر وہ طریقہ جو ان نصوص کیخلاف ہوگا اسے ظلم و زیادتی تصور کیا جائے گا اور ایسا کرنے والے کا محاسبہ ہوگا جیسا کہ مذکورہ بالا نصوص سے واضح ہوتا ہے اور جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سینگوں والی بکری سے بھی اس کا بدلہ لے گا جو اس نے بغیر سینگوں والی بکری کو مارا ہوگا‘ تو اس شخص سے کیوں نہ حساب لیا جائیگا جو ظلم اور اس کے بدترین نتائج کو خوب سمجھتا ہے۔

انہی نصوص شرعیہ اور ان کے تقاضوں کے پیش نظر فقہاء شریعت اسلامی نے ایسے ابواب بھی قائم کیے ہیں جن میں ایک طرف تو حیوانات کے حوالہ سے واجب‘ مستحب یا حرام و مکروہ امور کو بیان کیا گیا ہے اور دوسری طرف تفصیل کے ساتھ ان امور کوبھی بیان کیا گیا ہے جن کا تعلق حیوانات کے ذبح کرنے سے ہے تاکہ کھانے والے کیلئے وہ مباح ہو سکیں‘ چنانچہ ذیل میں ہم ان امور کو بیان کرتے ہیں جو بوقت ذبح جانور سے حسن سلوک سے متعلق ہیں اور انہیں پیش نظر رکھنا مستحب ہے۔ (۱) مذکورہ بالا حدیث:

«إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ»( صحيح مسلم)

’’اللہ تعالیٰ نے یہ فرض قرار دیا ہے کہ ہر چیز کے ساتھ احسان کیا جائے‘‘۔

کے پیش نظر یہ مستحب ہے کہ جس جانور کو ذبح کرنا مقصود ہو‘ اسے ذبح کرنے سے پہلے پانی پلا دیا جائے۔

(۲) ذبح کرنے کا آلہ بہت اچھا اور بہت تیز ہونا چاہئے اور ذبح کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اسے مقام ذبح پر بہت طاقت اور تیزی کے ساتھ چلا دے۔ اونٹ کا مقام ذبح لبہ ہے اور دیگر جانوروں کا حلق۔

(۳) اونٹ کو کھڑا کر کے اور اس کے بائیں ہاتھ (گھٹنے) کو باندھ کر نحر کیا جائے اور اگر ممکن ہو تو اسے قبلہ رخ کر لیا جائے۔

(۴) اونٹ کے علاوہ دیگر جانوروں کو بائیں طرف لٹا لیا جائے بشرطیکہ ذبح کرنے والے کے لئے آسانی سے ایسا ممکن ہو‘ وہ اپنے پائوں کو اس کی گردن پر رکھ لے‘ اس کے ہاتھ پائوں کو نہ باندھے اور نہ روح نکلنے اور حرکت بند ہونے سے پہلے کسی چیز کو مروڑے اور نہ توڑے۔ روح نکلنے اور حرکت بند ہونے سے پہلے گردن کو الگ کرنا بھی مکروہ ہے‘ نیز یہ بھی مکروہ ہے کہ ایک جانور کو ذبح کیا جائے اور دوسرا اسے دیکھ رہا ہو۔

O ’’لبہ‘‘ سے مراد گردن اور سینے کے درمیان کا گڑھا ہے۔ (مترجم)

جانور کو ذبح کرتے وقت اس کے ساتھ رحمت اور احسان کے پیش نظر مذکورہ بالا امور کو ملحوظ رکھنا مستحب ہے اور ایسے امور مکروہ ہیں جن میں رحمت و شفقت مفقود ہو‘ مثلاً اسے پائوں سے گھسیتنا۔ چنانچہ امام عبدالرزاقؒ نے موقوفاً روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ذبح کرنے کیلئے بکری کو پائوں سے گھسیٹ کر لے جا رہا ہے تو انہوں نے فرمایا: ’’تجھ پر افسوس! اسے موت کی طرف اچھے طریقے سے لے کر جائو‘‘۔

یہ بھی مکروہ ہے کہ جانور دیکھ رہا ہو اور اسے ذبح کرنے کیلئے چھری کو تیز کرنا شروع کر دیا جائے۔ مسند امام احمد میں حضرت ابن عمرؓ سے ایک روایت اس طرح بھی ثابت ہے:

«أمر رسول الله صلي الله عليه وسلم بحد الشفار وأن تواري عن البهائم » ( سنن ابن ماجه)

’’رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ چھریوں کو تیز کیا جائے اور انہیں جانوروں سے چھپا کر رکھا جائے‘‘۔

معجم طبرانی کبیر و اوسط میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے اور اس کے تمام راوی بھی صحیہ ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا‘ جس نے بکری کی گردن پر پائوں رکھا ہوا تھا‘ چھری کو تیز کر رہا تھا اور بکری اسے دیکھ رہی تھی‘ آپ نے فرمایا:

«أفلا قبل هذا ؟ أتريد أن تميتها موتين»( الطبراني)

’’یہ کام اس سے پہلے کیوں نہ کر لیا؟ کیا تو اسے دو دفعہ مارنا چاہتا ہے؟‘‘

جس جانور کو ذبح کرنا مقدور نہ ہو مثلاً جنگلی شکار یا بپھرا ہوا جانور یا بھاگا ہوا اونٹ وغیرہ تو اسے بسم اللہ پڑھ کر تیر وغیرہ ہے‘ جس سے خون بہہ جائے‘ ذبح کرنا جائز ہے لیکن اس مقصد کیلئے ہڈی یا ناخن کو استعمال کرنا جائز نہیں۔ تیر اگر اسے قتل کر دے تو اس کا کھانا جائز ہے کیونکہ اسے اس طرح قتل کرنا شرعی طور پر ذبح کرنے ہی کے حکم میں ہے بشرطیکہ یہ احتمال نہ ہو کہ اس کی موت اس تیر سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے واقع ہوئی ہے۔

آپ کی خواہش پر آپ کے استفادہ کیلئے یہ چند باتیں ذکر کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ یہاں ان تمام باتوں کو ذکر کرنا مقصود نہیں ہے جو مختلف حیوانات کے سلسلہ میں وارد ہیں۔ مختصر یہ کہ اسلام دین رحمت‘ حسن سلوک کی شریعت مکمل دستور‘ حیات اور اللہ تعالیٰ اور جنت تک پہنچانے کا سیدھا راستہ ہے‘ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس کی طرف دعوت دی جائے‘ اسی سے فیصلے کرائے جائیں‘ جو نہیں جانتے ان میں اس کی نشرو اشاعت کی کوشش کی جائے اور عامۃ المسلمین جو اس کے احکام و مقاصد سے ناواقف ہیں‘ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر انہیں یاد دہانی کرائی جائے۔ شریعت اسلامی کے مقاصد حد درجہ حکمت و عدل پر مبنی ہیں‘ اس میں ہر نفع بخش حیوان کے کھانے کی حرمت نہیں ہے۔ جیسا کہ بدھ مت کے لوگوں میں ہے اور نہ ہی اس میں ہر نقصان دہ جانور کو جائز قرار دیا گیا ہے‘ جیسا کہ سور اور چیر پھاڑ کرنے والے درندوں اور دیگر خبیث چیزوں کے کھانے والوں نے ہر چیز کو جائز قرار دے رکھا ہے۔ اسلام نے کسی بھی قابل احترام چیز کو خواہ وہ جان ہو یا مال یا عزت و آبرو ہو‘ اس پر نہ تو ظلم کیا ہے اور نہ اسے رائیگاں قرار دیا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں‘ جن میں سے سب سے بڑی نعمت تو خود اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد فرمائے‘ اپنے کلمہ کو سربلندی عطا فرمائے اور ہمیں ہماری کوتاہیوں کے سبب کافر لوگوں کیلئے فتنہ نہ بنائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص465

محدث فتویٰ

تبصرے