اگر کوئی شخص بکری ذبح کرے اور کہے کہ اے اللہ! اس کا ثواب فلاں بزرگ کے نامہ اعمال میں درج فرما دے تو کیا یہ بدعت ہوگا؟
اگر کوئی شخص بکری یا کوئی اور جانور ذبح کر کے کسی میت کی طرف سے صدقہ کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ اس میت کی تعظیم اور اس کے تقرب کے حصول کیلئے ذبح کرے تو وہ شرک اکبر کا مرتکب ہوگا کیونکہ ذبح کرنا بھی عبادت و قربت ہے اور عبادت و قربت صرف اللہ ہی کیلئے مخصوص ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرماں بردار ہوں‘‘۔
دونوں مقصدوں میں فرق کرنا واجب ہے یعنی اگر ذبح کرنے والے کا قصد یہ ہو کہ وہ اس کے گوشت کو صدقہ کر دے تاکہ اس کا ثواب اس میت کو حاصل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ اولیٰ اور احسن بات یہ ہے کہ میت کیلئے دعا کی جائے بشرطیکہ وہ مسلمان ہونے کی وجہ سے دعا کا مستحق ہو اور صدقہ انسان کو خود پانی طرف سے کرنا چاہئے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے امت کو یہ تعلیم نہیں فرمائی کہ وہ مردوں کی طرف سے صدقہ کریں بلکہ آپ نے تو یہ فرمایا:
’’جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو تین اعمال کے سوا اس کے سب اعمال منقطع ہو جاتے ہیں (۱) صدقہ جاریہ (۲) علم جس کے ساتھ نفع حاصل کیا جا رہا ہو اور (۳) نیک اولاد جو اس کیلئے دعا کرتی ہو‘‘۔
دیکھئے اس حدیث میں آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس کی طرف سے صدقہ کیا جائے یا روزہ رکھا جائے یا نماز پڑھی جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرنا افضل و احسن عمل ہے۔ عمل کے تو اے زندہ انسان! تم خود محتاج ہو‘ لہٰذا عمل خود اپنے لیے کریں اور اپنے فوت شدہ بھائی کیلئے دعا کریں۔ اگر کسی شخص کیلئے ذبح کرنے سے مقصود اس کا تقرب و تعظیم ہو تو یہ شرک ہے‘ شرک اکبر! کیونکہ اس نے اس عبادت کو غیر اللہ کے لئے سرانجام دیا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب