سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(470) بجو کے کھانے کا حکم

  • 9948
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2682

سوال

(470) بجو کے کھانے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تمباکو نوشی اور بجو کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تمباکو نوشی حرام ہے کیونکہ یہ خبیث ہے‘ پاکیزہ اور عقل سلیم والے نفوس (لوگ) اسے گندا سمجھتے ہیں اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الَّذينَ يَتَّبِعونَ الرَّ‌سولَ النَّبِىَّ الأُمِّىَّ الَّذى يَجِدونَهُ مَكتوبًا عِندَهُم فِى التَّور‌ىٰةِ وَالإِنجيلِ يَأمُرُ‌هُم بِالمَعر‌وفِ وَيَنهىٰهُم عَنِ المُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبـٰتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيهِمُ الخَبـٰئِثَ...﴿١٥٧﴾... سورة الاعراف

’’وہ لوگ جو (محمد) رسول (اللہ) کی جو نبی امی ہیں‘ پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کیلئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں‘‘۔

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَسـَٔلونَكَ ماذا أُحِلَّ لَهُم ۖ قُل أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ...﴿٤﴾... سورة المائدة

’’تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کیلئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہس ب پاکیزہ چیزیں تمہارے لئے حلال ہیں‘‘۔

نیز اس لیے بھی یہ حرام ہے کیونکہ یہ مفتر (عقل میں فتور پیدا کرنے والی) ہے اور رسول اللہﷺ نے ہر نشہ آور اور مستی پیدا کرنے والی چیز کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔ یہ روایت امام احمد اور ابو دائودؒ نے حضرت ام سلمہؓ کی سند سے بیان کی ہے۔ یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ طبی طور پر صحت کیلئے اس کا استعمال بے حد نقصان دہ ہے اور یہ قاعدہ سب جانتے ہیں کہ جس چیز کا ضرر ثابت ہو اس کا شرعاً استعمال حرام ہوتا ہے لہٰذا ان حالات میں تمباکو نوشی پر مال خرچ کرنا اضاعت مال شمار ہوگا اور رسول اللہﷺ نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ امام بخاری و مسلمؒ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

« إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ: عُقُوقَ الأُمَّهَاتِ، وَوَأْدَ البَنَاتِ، وَمَنَعَ وَهَاتِ، وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ المَالِ  » ( صحيح بخاري)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مائوں کی نافرمانی‘ خود نہ دینے اور دوسروں سے طلب کرنے‘ بچیوں کو زندہ درگور کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور قیل و قال‘ کثرت سوال اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے‘‘۔

یاد رہے یہاں مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے ۔(یعنی ان کاموں کا کرنا حرام ہے)

بجو کا کھانا حلال ہے کیونکہ امام احمد اور اصحاب سنن نے حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی عمارہؒ سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت جابرؓ سے پوچھا کیا بجو شکار ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں‘ میں نے کہا کیا میں اسے کھا سکتا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں! میں نے پوچھا: کیا یہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص426

محدث فتویٰ

تبصرے