سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(469) خارپشت کے بارے میں

  • 9947
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1879

سوال

(469) خارپشت کے بارے میں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خارپشت جو ایک معروف حیوان ہے‘ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے بعض نے اسے حلال اور بعض نے حرام قرار دیا ہے‘ زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ حلال ہے کیونکہ حیوانات کے بارے میں اصل حلت ہے اور ان میں سے صرف وہی حرام ہیں جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہو اور شریعت میں ایسی کوئی دلیل وارد نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ یہ جانور حرام ہے۔ یہ خرگوش اور ہرن کی طرح نباتات کھاتا ہے اور کچلی سے شکار کرنے والے درندوں میں سے بھی نہیں ہے لہٰذا اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ مذکورہ حیوان سیہہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے اسے ’’دلدل‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے اس کی جلد پر لمبے لمبے کانٹے ہوتے ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ سے جب خارپشت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں یہ آیت کریمہ پڑھ دی:

﴿قُل لا أَجِدُ فى ما أوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّ‌مًا عَلىٰ طاعِمٍ يَطعَمُهُ إِلّا أَن يَكونَ مَيتَةً أَو دَمًا مَسفوحًا أَو لَحمَ خِنزيرٍ‌ ...﴿١٤٥﴾... سورةالانعام

’’اے پیعمبر! کہہ دیجئے کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے‘ حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مردار جانور ہو یا بہتا ہوا لہو یا سور کا گوشت‘‘۔

ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شیخ نے کہا کہ ابو ہریرہؓ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے:

«خبيثة من الخبائث» ( سنن أبي داؤد)

’’یہ خبیث جانوروں میں سے ایک خبیث جانور ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ اگر رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے تو پھریہ ایسے ہی ہے جیسے کہ آپ نے فرمایا۔

حضرت ابن عمرؓ کے کلام سے واضح ہوا کہ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ رسول اللہﷺ نے خارپشت کے بارے میں کچھ فرمایا ہے‘نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے شیخ مذکور کی بات کی تصدیق بھی نہیں کی۔ اس شیخ مذکور کے مجہول ہونے کی وجہ سے امام بیہقیؒ اور کئی دیگر اہل علم نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ حلال ہے اور ضعیف قول یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص425

محدث فتویٰ

تبصرے