السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص نماز فجر کو اس قدر مؤخر کرتا ہو کہ اس کا وقت ہی نکل جاتا ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو لوگ نماز فجر کو اس قدر تاخیر سے ادا کریں کہ اس کا وقت ہی ختم ہو جائے، اگر وہ یہ عقیدہ رکھیں کہ ایسا کرنا حلال ہے تو یہ اللہ عزوجل کے ساتھ کفر ہے کیونکہ جو شخص بلا عذر نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے کو حلال سمجھے تو وہ کتاب وسنت اور اجماع امت کی مخالفت کی وجہ سے کافر ہے۔ اگر وہ اسے حلال نہ سمجھے اور تاخیر کی وجہ سے اپنے آپ کو گناہ گار تصور کرے لیکن اس پر نفس کا اور نیند کا غلبہ ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ کرنی چاہیے اور اس فعل کو ترک کر دینا چاہیے۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے حتیٰ کہ سب سے بڑے
کافر کے لیے بھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ قُل يـعِبادِىَ الَّذينَ أَسرَفوا عَلى أَنفُسِهِم لا تَقنَطوا مِن رَحمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا إِنَّهُ هُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ ﴿٥٣﴾... سورة الزمر
’’اے پیغمبر (میری طرف سے) لوگوں سے کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا، بے شک اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے بلا شبہ وہی تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
جس شخص کو ایسے کاموں کا علم ہو وہ انہیں نصیحت کرے اور نیکی کی طرف توجہ دلائے۔ اگر وہ توبہ کرلیں تو بہت بہتر ورنہ وہ اس سلسلہ میں متعلق اداروں سے اس کی شکایت کرے تاکہ وہ خود بری الذمہ ہو جائے اور ذمہ دار ادارے اس طرح کے لوگوں کو ادب سکھا سکیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب