سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(454) عمل قوم لوط کی خرابی

  • 9932
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2242

سوال

(454) عمل قوم لوط کی خرابی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دین میں لواطت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ اس سے عرش الٰہی بھی کانپ اٹھتا ہے؟ امید ہے آپ اس سوال کا مکمل اور دلائل سے مدلل جواب عطا فرمائیں گے تاکہ میں اور دوسرے لوگ بھی اس فعل سے باز آ جائیں۔ وجزاکم اللہ کل خبر۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لواطت یعنی مردوں سے جنسی عمل کرنا یا عورتوں کی دبر میں جنسی عمل کرنا‘ یہ وہ گناہ ہے جو حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کیا کرتی تھی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أَتَأتونَ الذُّكر‌انَ مِنَ العـٰلَمينَ ﴿١٦٥﴾... سورة الشعراء

’’کیا تم اہل جہاں میں سے لڑکوں پر مائل ہوتے ہو؟‘‘

﴿أَئِنَّكُم لَتَأتونَ الرِّ‌جالَ شَهوَةً مِن دونِ النِّساءِ ۚ... ﴿٥٥﴾... سورة النمل

’’کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت (حاصل کرنے) کیلئے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں اس فعل کی سخت ترین سزا دی‘ ان کے گھروں کو الٹ دیا اور آسمان سے پتھروں کی بارش برسائی۔

جیسا کہ فرمایا ہے:

﴿جَعَلنا عـٰلِيَها سافِلَها وَأَمطَر‌نا عَلَيها حِجارَ‌ةً مِن سِجّيلٍ مَنضودٍ ﴿٨٢ مُسَوَّمَةً عِندَ رَ‌بِّكَ ۖ وَما هِىَ مِنَ الظّـٰلِمينَ بِبَعيدٍ ﴿٨٣﴾... سورة هود

’’ہم نے اس (بستی) کو (الٹ کر) نیچے اوپر کر دیا اور ان پر تہ دار کھنگریلے پتھر برسائے جن پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان کیے ہوئے تھے اور وہ (بستی ان) ظالموں سے کچھ دور نہیں‘‘۔

تو جو شخص بھی اس جرم کا ارتکاب کرے‘ اسے یہی سزا ملنی چاہئے۔ بعض صحابہ کرامؓ نے یہ فتویٰ بھی دیا تھا کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے اور بعض نے یہ فتویٰ دیا کہ اسے کسی بلند پہاڑ کی چوٹی سے گرا دیا جائے اور پھر پتھروں سے رجم کر دیا جائے۔ احادیث میں نبی ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی موجود ہے:

«مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ، وَالْمَفْعُولَ بِهِ » ( سنن أبي داؤد)

’’جسے تم عمل قوم لوط کرتے ہوئے پائو تو فاعل اور مفعول بہ (یہ کام کرنے اور کرانے والے دونوں) کو قتل کر دو‘‘۔

سائل کو اس موضوع پر حافظ ابن قیمؒ کی کتاب ’’الجواب الکافی‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہئے‘ انہوں نے اس جرم کی قباحت کے بارے میں اس میں بہت کچھ ذکر فرمایا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص409

محدث فتویٰ

تبصرے