السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
غسل کن کن چیزوں سے واجب ہوتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غسل درج ذیل چیزوں سے واجب ہوتا ہے: (۱)شہوت کے ساتھ منی کے انزال سے خواہ حالت بیداری میں انزال ہو یا نیند میں، حالت نیند میں انزال منی سے غسل واجب ہے، خواہ شہوت محسوس نہ بھی ہو، کیونکہ سوئے ہوئے شخص کو احتلام ہو جاتا ہے مگر اسے شہوت محسوس نہیں ہوتی، منی جب شہوت کے ساتھ خارج ہو تو غسل ہر حال میں واجب ہے۔ (۲)جماع یعنی مرد اپنی بیوی سے ہم بستری کرے اور اپنے آلہ تناسل کو اس کی اندام نہانی میں داخل کر دے خواہ حشفہ ہی کو داخل کر ے یا زیادہ حصے کو تو اس سے بھی غسل واجب ہو جاتا ہے کیونکہ پہلی صورت کے بارے میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
« الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ»(صحیح مسلم، الحيض، باب انما الماء من الماء، ح: ۳۴۳)
’’پانی کا استعمال پانی نکلنے سے ہے۔‘‘
یعنی غسل اس صورت میں واجب ہوگا جب انزال ہو اور دوسری صورت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
«إِذَا جَلَسَ بَيْنَ شُعَبِهَا الْأَرْبَعِ ثُمَّ جَهَدَهَا فَقَدْ وَجَبَ الْغَسْلُ وَاِنْ لَمْ يُنْزِلْ»(صحیح البخاري، الغسل، باب اذا التقی الختانان ، ح: ۲۹۱ وصحيح مسلم، الحيض، باب نسخ الماء من الماء ح: ۳۴۸ واللفظ له)
’’جب وہ اس کی چاروں شاخوں کے درمیان بیٹھے اور اس کے ساتھ جماع کے لیے کوشش کرے تو غسل واجب ہو جاتا ہے، خواہ انزال نہ بھی ہو۔‘‘
یہ مسئلہ بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں کہ انزال کے بغیر جماع کے بارے میں کیا حکم ہے حتیٰ کہ بعض لوگ انزال کے بغیر اپنی بیوی سے ہم بستر ہوتے رہتے ہیں اور کئی ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں اور وہ ازراہ جہالت غسل نہیں کرتے، حالانکہ یہ بہت سنگین بات ہے۔ واجب ہے کہ انسان کو ان تمام حدود کے بارے میں علم ہو، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا ہے بہرحال مذکورہ بالاحدیث کے پیش نظر انسان جب اپنی بیوی سے مباشرت کرے اور انزال نہ بھی ہو تو اس پر اور اس کی بیوی پر غسل واجب ہے۔
۳۔ حیض اور نفاس کا خون نکلنے سے بھی غسل واجب ہو جاتا ہے۔ عورت کو جب حیض آئے اور پھر ختم ہو جائے تو اس پر غسل واجب ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّى يَطهُرنَ فَإِذا تَطَهَّرنَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾... سورة البقرة
’’اورتم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، کہہ دو وہ تو نجاست ہے، سو ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ ہاں جب پاک ہو جائیں تو جس طریق سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، ان کے پاس جاؤ۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ توبہ قبول کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتاہے۔‘‘
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ کو حکم دیا تھا کہ جب وہ بقدر حیض بیٹھ جائے تو غسل کر لے، نفاس والی عورت کے لیے بھی واجب ہے کہ جب نفاس ختم ہو جائے تو وہ غسل کرے۔ حیض و نفاس سے غسل کا طریقہ وہی ہے جو جنابت کی وجہ سے غسل کا طریقہ ہے۔ بعض اہل علم نے حائضہ کے لیے اس بات کو مستحب قرار دیا ہے کہ وہ غسل کرتے ہوئے پانی میں بیری کے پتے ڈال لے کیونکہ یہ نظافت وطہارت کے لیے بہت بہتر ہے۔ بعض علماء نے موجبات غسل میں موت کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کیا ہے کہ جو خواتین آپ کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں، ان سے آپ نے فرمایا:
«اِغْسِلْنَهَا ثَـلَاثًا، اَوْ خَمْسًا، اَو سبعا أوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ اِنْ رَأَيْتُنَّ ذٰلِکَ»(صحيح البخاري، الجنائز، باب غسل الميت ووضوئه بالماء والسدر، ح:۱۲۵۳ وصحيح مسلم، الجنائز، باب فی غسل الميت، ح: ۹۳۹)
’’انہیں تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا سات دفعہ یاضرورت محسوس کرو تو اس سے بھی زیادہ غسل دلاؤ۔‘‘
نیز جس شخص کو عرفہ کے میدان میں حالت احرام میں اس کی سواری نے نیچے گرا دیا تھا (جس کی وجہ سے وہ فوت ہوگیا تھا) اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
«اِغْسِلُوْهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَکَفِّنُوْهُ فِی ثَوْبَيْهِ»(صحیح البخاري، الجنائز، باب کیف یکفن المحرم، ح: ۱۲۵۶۷ وصحيح مسلم، الحج، باب ما يفعل بالمحرم اذا مات، ح: ۱۲۰۶ واللفظ له)
’’اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو اور اس کے دو کپڑوں ہی میں اسے کفن دے دو۔‘‘
ان احادیث کے پیش نظر ان علماء نے کہا ہے کہ موت بھی موجب غسل ہے، لیکن اس وجوب کا تعلق زندہ لوگوں سے ہے کیونکہ موت کی وجہ سے مردہ انسان مکلف نہیں رہتا۔ البتہ زندہ لوگوں کے لیے یہ واجب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے وہ اپنے مردوں کو غسل دیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب