جب کسی گاڑی کا ڈرائیور کسی انسان کو غلطی سے قتل کر دے اور مقتول کے وارث دیت معاف کر دیں تو کیا اس کیلئے دو ماہ کے روزے لازم ہوں گے یا اس سے کم ‘ کیونکہ یہ شخص کمزور ہے ‘ اس نے مقتول کو جان بوجھ کر قتل نہیں کیا ‘ اس کیلئے روزے معاف نہیں ؟
جب یہ ثابت ہو جائے کہ قتل خطا ہے تو دیت و کفارہ واجب ہو جاتے ہیں ‘ خواہ ڈرائیور نے مقتول کو جان بوجھ کر نقصان نہ بھی پہنچایا ہو ‘ وارث دیت معاف کر دیں تو دیت ساقط ہو جاتی ہیں مگر کفارہ باقی رہ جاتا ہے ‘ لہٰذا اس کیلئے متواتر دو مہینے کے روزے رکھنے واجب ہوتے ہیں ‘ کیونکہ آج کل غلام کو آزاد کرنا مشکل ہے ‘ اگر فی الحال متواتر روزے رکھنے سے عاجز ہو مگر ظن غالب یہ ہو کہ وہ مستقبل میں متواتر دو ماہ کے روزے رکھ سکے گا تو وہ اس وقت تک روزے مؤخر کر دے اور اگر وہ مستقبل میں بھی روزے رکھنے سے عاجز و قاصر ہو جائے تو اس کیلئے متواتر روزے رکھنا ساقط ہو جائیگا ‘ لہٰذا وہ شخص حسب طاقت جس طرح ممکن ہو روزے رکھ لے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘’ اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘
اور فرمایا:
‘’ اور تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں‘‘۔
اور فرمایا:
‘’ سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو‘‘۔
اور نبی اکرم ؐ نے بھی فرمایا ہے:
‘’ جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تواسے مقدور بھر بجا لائو‘‘
اس کی نظیر بلا طہارت اس شخص کیلئے وجوب نماز ے جو پانی اور مٹی وغیرہ سے طہارت حاصل کرنے سے عاجز و قاصر ہو ‘ نیز وہ مکلف جو نماز کے بعد ارکان ادا کرنے سے قاصر ہوں تو اس کیلئے بھی اس قدر نماز واجب ہے ‘ جس قدر وہ ادا کر سکتا ہے۔ رفع حرج اور آسانی شریعت سے متعلق نصوص کے عصوم اس اور اس طرح کی دیگر مثالوں کو شامل ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب