سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(434) کیا اس حادثے کی وجہ سے مجھ پر کفارہ لازم ہے؟

  • 9912
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1365

سوال

(434) کیا اس حادثے کی وجہ سے مجھ پر کفارہ لازم ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں گاڑی چلا رہا تھا ‘ میرے اہل خانہ بھی میرے ساتھ گاڑی میں سوار تھے ‘ تقدیر الٰہی سے گاڑی الٹ گئی جس کی وجہ سے میری بیوی فوت ہو گئی اور مجھے بھی بہت سخت چوٹیں لگیں ‘ کیا اس حادثہ میں بیوی کے فوت ہو جانے کی وجہ سے مجھ پر روزے یا صدقہ یا کوئی اور کفارہ لازم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر آپ نے تیز رفتاری کا مظاہرہ نہیں کیا ‘ گاڑی کو صحیح حالت میں رکھنے میں بھی کوتاہی نہیں کی اور حادثے کے وقت آپ کی گاڑی کی حالت ‘ رفتار اور آپ کی صحت معمول کے مطابق تھی تو پھر آپ پر کچھ بھی لازم نہیں کیونکہ آپ حادثے کا سبب نہیں بنے اور اگر آپ کسی وجہ سے حادثے کا سبب ود بنے ہیں تو آپ پر کفارہ لازم ہے اور وہ یہ کہ ایک مسلمان غلا کو آزاد کر دیا جائے اور اگر وہ میسر نہ ہو تو متواتر دو ماہ کے روزے رکھے جائیں ‘ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ أَن يَقتُلَ مُؤمِنًا إِلّا خَطَـًٔا ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطَـًٔا فَتَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ إِلّا أَن يَصَّدَّقوا ۚ فَإِن كانَ مِن قَومٍ عَدُوٍّ لَكُم وَهُوَ مُؤمِنٌ فَتَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُؤمِنَةٍ ۖ وَإِن كانَ مِن قَومٍ بَينَكُم وَبَينَهُم ميثـٰقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ وَتَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُؤمِنَةٍ ۖ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ شَهرَ‌ينِ مُتَتابِعَينِ تَوبَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَكانَ اللَّهُ عَليمًا حَكيمًا ﴿٩٢﴾... سورةالنساء

‘’ اور کسی مومن کیلئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کر ڈالے ‘ مگر یہ کہ غلطی ہو جائے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر ڈالے تو اس کی سزا یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کر دے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ‘ ہاں اگر وہ معاف کر دیں تو ان کو اختیار ہے اور جس کو مسلمان غلام میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ کفارہ اللہ کی طرف سے قبولیت توبہ کیلئے ہے اور اللہ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے‘‘۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص394

محدث فتویٰ

تبصرے