قرآن و حدیث کی روشنی میں پردے کے متعلق مکمل معلومات چاہییں۔
شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
( استثناء كردہ اعضاء كے علاوہ باقى سارے جسم كو چھپانا اور ڈھانپنا)
يہ اس فرمان بارى تعالى ميں بيان ہوا ہے:
﴿ اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ﴾الاحزاب ( 59 ).
تو آيت ميں اجنبى مرد كے سامنے سارى زينت چھپانے اور اس كے عدم اظہار كے وجوب كى تصريح بيان ہوئى ہے، ليكن جو بغير كسى قصد و ارادہ كے ظاہر ہو جائے اور وہ فورا اسے ڈھانپ ليں تو اس پر ان كا مؤاخذہ نہيں ہے.
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" يعنى: وہ اجنبى مردوہ كے اپنى زينت ظاہر نہ كريں، مگر وہ جس كا چھپانا ممكن نہيں، ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں: مثلا چادر اور كپڑے، يعنى عرب كى عورتوں كى اپنے اوپر چادر اوڑھنے كى جو عادت تھى اور جو كپڑے كے نچلے حصہ ظاہر ہوتا ہے اس ميں عورت پر كوئى حرج نہيں كيونكہ اس كا چھپانا ممكن نہيں.
( وہ پردہ بذات خود زينت نہ ہو ).
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور وہ اپنى زينت ظاہر نہ كريں﴾.
يہ عام ہے اور عموم ظاہرى كپڑوں كو بھى شامل ہے، جب وہ كپڑے اور لباس كڑھائى شدہ ہو اور لوگوں كے ليے جاذب نظر ہو، اور مردوں كى نظريں اس كى طرف اٹھتى ہوں، اس كى گواہى درج ذيل فرمان بارى تعالى سے بھى ملتى ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور اپنے گھروں ميں ٹكى رہو، اور قديم جاہليت كے زمانے كى طرح اپنے بناؤ سنگھار كا اظہار نہ كرو، اور نماز قائم كرتى رہو، اور زكاۃ ديتى رہو اور اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت و فرمانبردارى كرتى رہو، اللہ تعالى يہى چاہتا ہے كہ اے نبى كى گھر واليو! تم سے وہ ( ہر قسم ) كى گندگى دور كر دے، اورتمہيں خوب پاك كر دے ﴾الاحزاب ( 33 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تين شخصوں كے متعلق تم سوال مت كرو: ايك وہ شخص جس نے جماعت سے علحدگى اختيار كرلى، اور اپنے امام كى نافرمانى كى، اور معصيت كى حالت ميں ہى مر گيا، اور وہ غلام يا لونڈى تو مالك سے بھاگ گيا اور اسى حالت ميں مر گيا، اور ايك وہ شخص جس كا خاوند گھر ميں نہ ہو اور اس نے بيوى كے سارے اخراجات اور دنياوى ضروريات پورى كى ہوں تو اس كے بعد پھر وہ بےپردگى كرے تو ان كے متعلق سوال مت كرو "
اسے امام حاكم ( 1 / 119 ) اور امام احمد ( 6 / 19 ) نے فضالۃ بنت عبيد سے روايت كيا ہے، اور اس كى سند صحيح ہے، اور يہ ادب المفرد ميں موجود ہے.
وہ پردہ موٹا اور صحيح بنائى والا ہو اور شفاف نہ ہو.
كيونكہ اس سے ہى چھپاؤ اور پردہ ہو سكتا ہے، ليكن اگر شفاف اور باريك ہو گا تو يہ كپڑا عورت كو اور پرفتن بنا كر مزين كريگا.
اسى كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميرى امت كے آخر ميں كچھ عورتيں ايسى ہونگى جو لباس پہننے والى ننگى عورتيں جو خود مائل ہونے والى اور دوسروں كو مائل كرنے والى، ان كے سر بختى اونٹوں كى مائل كوہانوں كى طرح ہونگے يہ لعنى عورتيں ہيں "
اور ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ:
" وہ نہ تو جنت ميں داخل ہونگى اور نہ ہى جنت كى خوشبو ہى پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو اتنى اتنى مسافت سے پائى جاتى ہے "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى مراد وہ عورتيں ہيں جو باريك اور خفيف لباس پہنتى ہيں، جس سے جسم كا وصف واضح ہوتا ہے، اور وہ جسم كو چھپاتا نہيں، يہ بےنام سا لباس پہنے ہوئے ہيں، ليكن حقيقت ميں ننگى ہيں "
اسے امام سيوطى نے " تنوير الحوالك ( 3 / 103 ) ميں نقل كيا ہے.
وہ پردہ كھلا ہو اور تنگ نہ ہو كہ جسم كا كوئى بھى حصہ واضح كرے.
كيونكہ لباس پہننے كى غرض يہ ہے كہ فتنہ اور خرابى كو ختم كيا جائے، اور يہ چيز كھلے اور وسيع لباس كے بغير حاصل نہيں ہو سكتى، اگر تنگ لباس ہو تو يہ لباس جلد كا رنگ تو چھپائيگا ليكن جس كا انگ انگ اور حجم واضح كر كے ركھ ديگا، اور مردوں كى آنكھوں ميں اس كا تصور ديگا، اس ميں ايسى خطرناك خرابى اور اس كى جانب دعوت پائى جاتى ہے جو مخفى نہيں.
اس ليے واجب اور ضرورى ہے كہ لباس اور پردہ كھلا ہو، اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے ايك موٹى قبطى چادر دى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دحيہ كلبى رضى اللہ تعالى عنہ نے ہديہ ميں دى تھى، تو ميں نے وہ چادر اپنى بيوى كو دے دى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:
تمہيں كيا ہے وہ قبطى چادر كيوں نہيں پہنتے ؟
تو ميں نے عرض كيا:
ميں نے وہ چادر اپنى بيوى كو پہنا دى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اسے كہو كہ وہ اس كے نيچے بھى كچھ پہنے ( شميض ) كيونكہ مجھے خدشہ ہے كہ وہ اس كى ہڈيوں كا حجم واضح كريگى "
اسے ضياء المقدسى نے " الاحاديث المختارۃ ( 1 / 441 ) ميں اور امام احمد اور بيہقى نے حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
وہ خوشبودار نہ ہو اور اسے خوشبوكى دھونى نہ دى گئى ہو.
بہت سارى احاديث ميں آيا ہے كہ عورتيں گھر سے باہر نكلتے وقت خوشبو لگا كر مت نكليں، يہاں ہم كچھ صحيح احاديث ذكر كرتے ہيں:
1 - ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو عورت بھى خوشبو لگا كر كسى قوم كے پاس سے گزرے اور وہ اس كى خوشبو كو سونگھيں تو وہ عورت زانيہ ہے "
2 - زينب الثقفيۃ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى عورت مسجد جائے تو وہ خوشبو كے قريب بھى نہ ہو "
3 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو عورت بھى خوشبو كى دھونى لے وہ ہمارے ساتھ عشاء كى نماز ميں مت شامل ہو "
4 - موسى بن يسار بيان كرتے ہيں كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس سے ايك عورت گزرى جس سے خوشبو آ رہى تھى، تو ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى اسے كہنے لگے:
اے جبار و زبردست رب كى بندى كيا تم مسجد جانا چاہتى ہو ؟
اس عورت نے جواب ديا: جى ہاں.
تو ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اسى ليے خوشبو لگائى ہے؟
تو اس عورت نے جواب ديا: جى ہاں.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے جواب ديا: جاؤ واپس جا كر غسل كرو، كيونكہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
" جو عورت بھى مسجد كى جانب جائے، اور اس كى خوشبو بكھر رہى ہو تو اللہ تعالى اس كى نماز اس وقت تك قبول نہيں فرماتا حتى كہ وہ واپس اپنے گھر آ كر غسل نہ كر لے "
اس حديث سے وجہ استدلال عموم ہے جيسا ہم بيان كر چكے ہيں جس ميں عطر اور خوشبو لگانا شامل ہے، جس طرح بدن كو خوشبو لگائى جاتى ہے اسى طرح كپڑوں كے ليے بھى استعمال ہوتى ہے، اور خاص كر تيسرى حديث ميں بخور يعنى دھونى كا ذكر ہوا ہے جو اكثر اور خاص كر كپڑوں كے ليے استعمال ہوتى ہے.
اس سے منع كرنے كا سبب واضح ہے كہ اس سے شہوت كے اسباب كو حركت و انگيخت ملتى ہے، اور علماء كرام نے اسے بھى اس كے ساتھ ملحق كيا ہے جو اس كے معنى ميں آتى ہو مثلا لباس كا خوبصورت ہونا، اور زيور جو ظاہر ہو، اور اچھى قسم كى زينت اور اسى طرح مردوں سے اختلاط.
ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 279 ).
ابن دقيق العيد كہتے ہيں:
اس ميں مسجد جانے كے ليے گھر سے نكلنے والى عورت كے ليے خوشبو لگانى حرام ہے، كيونكہ اس ميں مردوں كى شہوت انگيخت كے اسباب كو تحريك ملتى ہے، امام مناوى نے اسے " فيض القدير " ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى پہلى حديث كى شرح ميں نقل كيا ہے.
وہ لباس مردوں كے لباس كے مشابہ نہ ہو. كيونكہ احاديث ميں لباس وغيرہ ميں مردوں كى مشابہت كرنے والى عورت پر لعنت كى گئى ہے، ذيل ميں ہم اپنے علم كے مطابق چند ايك احاديث بيان كرتے ہيں: 1 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں جيسا لباس پہننے والے مرد پر لعنت فرمائى، اور مردوں جيسا لباس پہننے والى عورت پر بھى لعنت فرمائى "
2 - عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا: " جس عورت نے بھى مردوں سے اور جس مرد نے بھى عورتوں سے مشابہت كى وہ ہم ميں سے نہيں " 3 - ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مردوں ميں ہيجڑوں پر لعنت فرمائى، اور عورتوں ميں سے مرد بننے كى كوشش كرنے والى عورتوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: انہيں اپنے گھروں سے نكال دو "
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں: چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فلاں كو، اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فلاں كو نكالا " اور ايك حديث كے الفاظ ہيں: " رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں سے مشابہت كرنے والے مردوں، اور مردوں سے مشابہت كرنے والى عورتوں پر لعنت فرمائى " 4 - عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين قسم كے اشخاص نہ تو جنت ميں داخل ہونگے، اور نہ ہى اللہ تعالى روز قيامت ان كى جانب ديكھےگا بھى نہيں، والدين كى نافرمانى كرنے والا، اور مرد بننے اور مردوں سے مشابہت كرنے والى عورت، اور ديوث و بےغيرت شخص "
5 - ابن ابى مليكہ ـ ان كا نام عبد اللہ بن عبيد اللہ ہے ـ كہتے ہيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے كہا گيا: عورت جوتا پہنتى ہے، تو وہ كہنے لگيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں ميں سے مرد كى مشابہت كرنے والى پر لعنت كى ہے " ان احاديث ميں واضح دليل پائى جاتى ہے كہ مردوں سے مشابہت اختيار كرنا عورتوں كے ليے حرام ہے، اور اسى طرح اس كے برعكس عورتوں سے مشابہت كرنا بھى حرام ہے، اور يہ عادتا لباس وغيرہ كو شامل ہے، صرف پہلى حديث لباس كے متعلق نص ہے. ہفتم:
وہ لباس كافرہ عورتوں كے لباس سے مشابہ نہ ہو. جب شريعت ميں يہ مقرر ہے كہ مسلمان مرد اور عورت كے ليے كفار سے مشابہت اختيار كرنى جائز نہيں، چاہے يہ مشابہت ان كى عبادت ميں ہو يا پھر عادات ميں، يا تہواروں اور ان كے مخصوص لباس ميں، شريعت اسلاميہ ميں يہ عظيم قاعدہ اور اصول ہے جس سے آج ـ افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ ـ بہت سارے مسلمان اس سے نكل چكے ہيں، حتى كہ وہ بھى جن سے دينى امور ليتے ہيں،اور اپنے دين سے جاہل ہونے يا پھر اپنى خواہشات كى پيروى كرتے ہوئے يا اس دور كے رسم و رواج اور يورپ كى تقليد كرتے ہوئے اس كى دعوت بھى ديتے ہيں. حتى كہ مسلمانوں كے ضعف اور كافروں كےتسلط كے اسباب ميں بھى يہى چيز شامل ہے. فرمان بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى بھى اس قوم كى حالت كبھى نہيں بدلتا جب تك وہ اپنى حالت خود نہ بدلے "
اگر وہ علم ركھتے ہوں. اور يہ ضرورى ہے كہ اس عظيم قاعدہ اور اصول كے صحيح ہونے كے كتاب و سنت سے دلائل معلوم ہوں، جو كہ بہت زيادہ ہيں، چاہے كتاب اللہ كے دلائل مجمل ہيں، ليكن سنت نبويہ ان كى تفسير و توضيح كرتى ہے. ہشتم:
وہ لباس شہرت والا نہ ہو. ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى دنيا ميں شہرت كا لباس پہنا اللہ تعالى اسے روز قيامت ذلت والا لباس پہنائيگا، اور پھر اس ميں آگ بھڑكا دى جائيگى "
ديكھيں: حجاب المراۃ المسلۃ ( 54 - 67 ).
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب