ایک شخص نے اپنے ماموں کی بیٹی سے نکاح کیا جس سے پانچ بچے پیدا ہوئے ‘ اس کے بعد اس کی والدہ اور خاندان کے دیگر لوگوں کی گفتگو ہو رہی تھیں کہ اس کی والدہ نے بتایا کہ اس نے اس کی بیوی کو اس وقت دودھ پلایا تھا جب کہ اس کی عمر نو ماہ تھی ‘ پہلے تو اس نے کہا تھا کہ اس نے اسے صرف ایک بار دودھ پلایا تھا اور جب اس سے اصرار کے ساتھ پوچھا گیا کہ خوب یاد کر کے سچ سچ بتائے کہ اس نے اسے کتنی بار دودھ پلایا تھا تو اس نے کہا کہ اب اسے یہ یاد نہیں کہ اس نے اسے ایک بار دودھ پلایا تھا یا زیادہ بار کیونکہ اب اس واقعہ کو بیس سال ہو چکے ہیں تو سوال یہ ہے کہ اس حالت میں اس شخص کو کیا کرنا چاہیے؟
اس حالت میں اسے کچھ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ رضاعت کے احکام صرف اسی صورت میں ثابت ہوتے ہیں جب یہ پانچ رضعات پر مشتمل ہو اور دودھ چھڑانے سے پہلے دو سال کی عمر کے اندر ہو ‘ اگر رضاعت اس سے کم ہو تو اس سے حرمت یا احکام رضاعت ثابت نہیں ہوتے۔ اگر رضاعت میں کوئی شک ہو کہ وہ پانچ رضعات ہے یا اس سے کم ہے تو اس صورت میں اسے پانچ رضعات سے کم سمجھا جائیگا اور اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی ‘ لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ شک کی صورت میں شادی نہ کی جائی ‘ لیکن اب جبکہ شادی ہو چکی ہے ‘ عقد بھی صحیح طریقے سے ہوا ہے ‘ لہٰذا تفریق لازم نہیں ہے کیونکہ ایسی کو یقینی وجہ ثابت نہیں ہے جو مفسد نکاح ہو بلکہ عقد ثابت اور یقینی ہے جبکہ مفسد غیر یقینی ہے ‘ لہٰذا یقینی کو غیر یقینی کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا لہٰذا یہ نکاح برقرار ہے گا اور اس میں کوئی حرج نہیں ‘ الایہ کہ اس کی والدہ کو یہ یاد آ جائے کہ اس نیاس عورت کو پانچ یا اس سے زیادہ مرتبہ رضاعت کے وقت دودھ پلایا ہے تو اس سے یہ ثابت ہو گا کہ یہ عقد فاسد ہے ‘ لہٰذا اس صورت میں تفریق ضروری ہو گی ‘ اس نکاح کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد اس شخص کی شرع یاولاد ہو گی کیونکہ یہ ایسے نکاح کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے جسے یہ حکم شرعی کے تقاضے کے مطابق صحیح سمجھتا تھا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب