سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(380) آپ کے رضاعی والد کی دوسری بیوی سے اولاد آپ کے

  • 9857
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1589

سوال

(380) آپ کے رضاعی والد کی دوسری بیوی سے اولاد آپ کے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے ایک عورت کا دودھ پیا تھا ‘ پھر اس کے شوہر نے ایک دوسری عورت سے شادی کی اور اس کے بطن سے اس کے بیٹے پیدا ہوئے تو کیا اس کے وہ بیٹھے بھی میرے بھائی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب پانچ یا اس سے زیادہ رضعات پیے ہوں اور دودھ شوہر کی طرف سے منسوب ہو کہ عورت نے اس کے بچے جنم دیے ہوں تو وہ ماں باپ دونوں کی طرف سے آپ کے رضاعی بھائی ہیں اور اس کی دوسری بیوی کے بیٹے صرف باپ کی طرف سے آپ کے رضاعی بھائی ہیں۔

ایک رضعہ یہ ہے کہ بچہ پستان کو پکڑے اور اس سے دودھ چوسے حتی کہ دودھ کے اس کے پیٹ میں پہنچ جائے اور پھر وہ کسی بھی سبب کی وجہ سے پستان کو چھوڑ دے اور دوبارہ پھر پستان سے دودھ چوسے حتی کہ دودھ اس کے پیٹ میں پہنچ جائے اور پھر وہ دودھ پینا چھوڑ دے اور اس کے بعد وہ پھر دودڈھ پینا شروع کر دے ‘ حتی کہ وہ اس طرح پانچ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ دودھ پیے خواہ یہ ایک مجلس میں پیے یا زیادہ مجلسوں میں ‘ خواہ ایک دن میں پیے یا زیادہ دنوں میں بشرطیکہ یہ دو سال کی مدت کے اندر اندر پیے کیونکہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا:

((لا رضاع إلا في الحولين )) ( سنن الدار قطنى)

’’رضاعت وہی معتبر ہے جو دو سال کے اندر ہو‘‘

نیز آپ ؐ نے سہلہ بنت سہیل ؓ سے فرمایا تھا:

((أرضعيه – اي سالما – خمس رضعات تحرمى عليه )) ( صحيح مسلم )

’’سالم کو پانچ رضعات دودھ پلائو اس سے آپ اس کیلئے حرام ہو جائیں گی۔‘‘

صحیح مسلم اور جامع ترمدی میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے:

((كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن ثم نسخن بخمس معلومات ، فتوفي رسول الله ﷺ وهي فيما يقرأ من القرآن)) ( صحيح مسلم)

’’قرآن مجید میں دس معلوم رضعات کا حکم نازل ہوا تھا جس سے مرمت ثابت ہوتی تھی پھر ان کو پانچ معلوم رضعات کے ساتھ منسوخ کر دیا گیا اور جب نبی ؐ کی وفات ہوئی وہ قرآن میں پڑھی جاتی تھیں۔‘‘

اللہ ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الرضاع: جلد 3  صفحہ 356

محدث فتویٰ

تبصرے