سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(361) معمر عورت کیلئے بھی سوگ لازم ہے

  • 9838
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1337

سوال

(361) معمر عورت کیلئے بھی سوگ لازم ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سترسال سے زائد عومر کی ایک ایسی عورت کا شوہر فوت ہوگیا ہے جو کم عقل تھی اور بیوی ہونے کے باوجود اس کا عرصہ سے خاوند کے ساتھ کوئی میاں بیوی والا تعلق نہ تھا،کیا اس کے لئے بھی دیر عورتوں کی طرح سوگ لازم ہے؟اگر سوگ کی مشروعیت سے صرف یہ معلوم کرنا مقصود ہے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں تو حاملہ کی عدت صرف و ضع حمل ہی کیوں ہے،جب کہ یہ معمر عورت تو اب حمل سے رک چکی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں مذکور بوڑھی عورت عدت بھی گزارے گی اور چار ماں دس دت تک سوگ بھی،کیونکہ یہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے عموم میں داخل ہے:

﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُ‌ونَ أَزْوَاجًا يَتَرَ‌بَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْ‌بَعَةَ أَشْهُرٍ‌ وَعَشْرً‌ا...٢٣٤﴾... سورة البقرة

’’اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں(بیویاں) چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار مہینے اور دس دن تک اپنے آپ کو روکے رہیں۔‘‘

اگر عورت معمر اور حمل سے رک چکی ہوت تو عدت اور سوگ کی مشروعیت میں حکمت یہ ہے کہ اس سے نکاح کی عظمت،اس کی قدرو منزلت کی رفعت ،اس کی شرط کے اشہار،شوہر کے حق کی ادائیگی اور آرائش و زیبائش کو ترک کر کے شوہر سے محرومی کی کیفیت کا اظہار کرنا ہے،شہی وجہ ہے کہ باپ اور بیٹے کی نسبت شوہر کی وفات پر زیادہ سوگ کا حکم دیا گیا ہے اور حاملہ کی عدت صرف وضع حمل ہے،کیونکہ ارشادی باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ...٤﴾... سورة الطلاق

’’ اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننے) تک ہے۔‘‘

اور اس آیت نے

﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُ‌ونَ أَزْوَاجًا يَتَرَ‌بَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْ‌بَعَةَ أَشْهُرٍ‌ وَعَشْرً‌ا...٢٣٤﴾... سورة البقرة

کے عموم کی تخصیص کر دی ہے ‘ وضع حمل سے عدت ختم ہو جانے میں یہ حکمت بھی ہے کہ یہ حمل پہلے شوہر کا حق ہے ‘ لہٰذا اگر وفات یا کسی اور سبب سے جدائی کی وجہ سے حالت حمل میں یہ کسی دوسرے شوہر سے شادی کرے تو وہ کسی غیر کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کریگا اور یہ رسول اللہ ؐ کے اس ارشاد کے عموم کی وجہ سے جائز نہیں ہے:

((لا يحل لإمرىء يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره )) ( سنن أبي داؤد)

’’کسی بھی مسلمان آدمی کیلئے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز نہیں کہ وہ کسی غیر کل کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرے۔‘‘

ہر مسلمن شخص کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ شرعی احکام کے مطابق عمل کرے خواہ وہ ان کی حکمت کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اور اس بات پر بھی ایمان رکھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو بھی احکام مقرر فرمائے ہیں وہ حکمت پر مبنی ہیں اور اگر کسی کو یہ حکمت بھی معملوم ہو جائے تو یہ نور علی نور اور سراپا خیر ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب العده: جلد 3  صفحہ 340

محدث فتویٰ

تبصرے